آسمان بادلوں سمیت پھٹ جائے گا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره فرقان / آیه 27 - 29سوره فرقان / آیه 25 - 26

ان آیات میں قیامت اور روز قیامت کے گناہ گاروں کے انجام کے بارے میں گفتگو کو آگے بڑھا یاگیا ہے ، پہلے فرمایا گیا ہے :گناہ گاروں کے مصائب اور رنج و غم کا دن ہو گا کہ کہ جب آسمان بادلوں سمیت پھٹ جائے گااور فرشتے پے در پے اتر نا شروع ہوں گے ( وَیَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلَائِکَةُ تَنزِیلًا )(۱) ۔
”غمام“”غم “کے مادہ سے ہے جس کا معنی کسی چیز کو چھپانا چونکہ بادل آسمان کو چھپا دیتے ہیں لہٰذا انھیں غمام کہتے ہیں ۔اسی طرح رنج و اندوہ کو ”غم“ کہتے ہیں کیونکہ وہ دل کو چھپا دیتے ہیں ۔
یہ آیت در حقیت مشرکین کے ایک مطالبے اور ایک اور بہانے کا جواب ہے وہ اپنے افسانوں کے مطابق اس بات کے منتظر تھے کہ خدا اور اس کے فرشتے بادلوںں میں بیٹھ کر آئیں اور نھیں حقو کی دعوت دیں اسی طرح یہودیوں کے قصے کہانیوں میں بھی ہے کہ کبھی کبھی خدا بادلوں کے درمیان سے ظاہر ہوجاتا ہے(۲) ۔
قرآن مجید انھیں اسی چیز کا جواب دے رہا ہے کہ ہاں ( خدا تو نہیں البتہ) فرشتے ایک دن ان کے پاس ضرور آیں گے لیکن کس دن ؟جس دن ان کے عذاب اور سزا کا موقع آجائے گا اور آکران کی بیہودہ باتوں کو ختم کر دے گا ۔
اب دیکھتے ہیں کہ بادلوں سمیت آسمان کے پھٹ جانے سے کیا مراد ہے ؟جبکہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہمارے اطراف میں آسمان نام کی کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو پھٹ جانے کے قابل ہو۔
علامہ طبا طبائی ( رضوان اللہ تعالیٰ ) تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں :
آسمان کے شگافتہ ہو جانے سے مراد عالم شہود ہے اور جہالت اور نادانی کے حجابوں کا ہٹ جانا اور عالم ِ غیب کا ظاہر ہو جاناہے یعنی اس دن انسان کے اندر اس قدر بینائی پیدا ہو جائے گی جو آج کے دن سے بہت مختلف ہو گی ، سب پردے ہٹ جائیں گے اور لوگ فرشتوں کو عالم بالا سے اترتا ہوا دیکھیں گے ۔
ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ ” سماء “ سے مراد آسمانی کُرّے ہیں جو پے در پے پھٹ جائیں گے اور تباہ ہو تے جائیں گے ، ان دھماکوں سے اٹھنے والا اور پہاڑوں کے تباہ بر باد ہو نے سے بلند ہو نے والا دھواں صفحہ آسمانی کو لپیٹ میں لے لے گا ۔
بنابریں آسمانی کُرّات پھٹ جائیں گے اور ان کے ساتھ ساتھ ان سے اٹھنے والے دھویں کے بادل بھی(۳) ۔
قرآن مجید کی بہت سے آیتیں خاص کر آخری پارے کی چھوٹی چھوٹی سورتوں کی آیات اس حقیقت کی وضاحت کر رہی ہیں کہ قیامت سے پہلے عالم ہستی میں عجیب و غریب تبدیلیاں رونما گی۔ پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح فضا میں پھیل جائیں گے سورج بے نور ہو جائے گا ستارے ماند پڑ جائیں گے حتی کے چاند اور سورج کے فاصلے سمٹ جائیں گے ساری زمین پر سخت زلزلہ آئے گا ۔
ہاں تو ا س دن آسمان کا تباہ ہو جانا یعنی آسمانی کّروں کا گہرے بادلوں کی وجہ وسے صفحہ آسمانی سے پوشیدہ ہو جانا ایک فطری امر ہوگا ۔
اسی تفسیر کو ایک اور صورت میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ :
کواکب اور سیاروں کے دھماکوں اور زبر دست تبدیلیوں کی وجہ سے آسمان کے بادلوں سے ڈھک جائے گا لیکن چونکہ ان بادلوں میں کبھی کبھار کوئی شگاف پڑجاتا ہے اور آسمان کو صحیح صورت میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ بنا بریں یہ آسمان جو ان آنکھوں سے دیکھا جا تا ہے ان پھٹے ہو ئے عظیم بادلوں سے ذریعے جدا ہو جائے گا(۴) ۔
اس آیت کی اور بھی بہت سی تفاسیر بیان ہو ئی ہیں جو علمی اور منطقی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتیں جبکہ مندر جہ بالا تینوں تفسیروں کا آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے ممکن ہے کہ اس مادی کائنات کے پر دے انسان کی آنکھوں کے سامنے سے ہٹا دیئے جائیں اور وہ عالمِ طبیعت کا مشاہدہ کرے ۔ دوسری طرف آسمانی کُرّے دھماکوں کے ساتھ تباہ و بر باد ہو جائیں اور ان دھماکوں سے دھویں کے بادل اٹھیں گے ان بادلوں کے دمیاں کہیں کہیں شگاف پڑ جائیں گے یہی دن اس جہاں کا آخری اور اس دوسری جہان کا پہلا دن ہو گا جو بے ایمان گناہ گار مجرمین اور ہٹ دھرم ظالموں کے لئے نہایت ہی دردناک ہو گا ۔
اس کے بعد اس دن کی اورنمایاں خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اس دن حکومت خداوند رحمن ہی کی ہوگی ( الْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَان)۔
حتی کے اس دنیا کے مجازی ، فانی ، محدود اور جلد ختم ہو جانے والی حکومتوں کے تختے الٹ دیئے جائیں گے اور ہر لحاظ سے اور تمام جہات سے حاکمیت صرف اور صرف خدا وند متعال ہی کی ہوگی ۔ اسی بناء پر وہ دن ”کافروں کے لئے بہت ہی سخت ہوگا “(وَکَانَ یَوْمًا عَلَی الْکَافِرِینَ عَسِیرًا) ۔
جی ہاں اس تمام خالی تصوراتی طاقتیں بالکل ختم ہو جائیں گی، حاکمیت اور اقتدار ِ اعلیٰ صرف اور صرف خدا ہی کے لئے ہو گا ، کافروں کی تمام پناہ گاہیںملیا میٹ ہو جائیں گی اور تمام طاغوتی طاقتیں نابود ہوجائیں گی ۔اگرچہ اس جہان میں بھی ان طاقتوں کی خدا کے ارادے و مشیت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں لیکن پھربھی ظاہری طمطراق اور جھوٹا وقار تو ہے چونکہ عرصہٴ محشر میں صرف حقائق ہی نمایاں ہوں گے اور مجازی ، خیالی اورتصوراتی امور کی حیثیت ختم ہو جائے گی۔
خداوند عالم کے عذاب سے بے ایمان افراد کو کوئی چیز نہیں بچا سکے گی لہٰذا وہ دن کفار کے لئے انتہائی سخت ہو گا جبکہ مومنین کے لئے بہت سہل اور نہایت آسان ہو گا ۔
ایک حدیث میں ابو سعید خدری سے منقول ہے کہ ایک دن آنحضرت نے اس آیت کی تلاوت فرمائی
”فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنة“
یعنی قیامت کا دن بچاس ہزار سال کے برابر ہوگا تو میں سے عرض کیا !یہ دن کس قدر لمبا اور عجیب ہو گا ؟ تو آپ نے فرمایا :۔
والذی نفسی بیدہ انہ لیخفف عن المومن حتی یکون اخف علیہ من صلوات مکتوبة یصلیھا فی الدنیا
اس ذات کی قسم کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے وہ دن مومنین کے لئے اس قدر آسان ہوگا کہ جتنی دیر وہ دنیا میں ایک فرض نماز پڑھنے میں لگا دیتا ہے اس سے بھی زیادہ آسان (۵) ۔
قرآن میں دوسری آیات میں غور و فکر کرنے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کا دن کافروں پر سخت ہو گا کیونکہ کہیں پر تو ہے :۔
تقطعت بھم الاسباب ۔ (بقرہ ۱۶۶)
اس دن تمام دنیاوی اسباب اور وسائل منقطع ہو جائیں گے ۔
کسی جگہ ہے :
ما اغنیٰ عنہ مالہ وماکسب (تبّت:۲)
انھیں نہ تو ان کا مال اور نہ ہی انھوں نے جو کچھ کمایا ہے کوئی فائدہ پہنچائے گا۔
کسی مقام پر ہے :
یوم لیغنی مولیً عن مولیً شیئاً( دُخان :۴۱)
وہاں کوئی کسی کی داد و فریاد کو نہیں پہنچے گا ۔
حتیٰ کہ شفاعت بھی جو کہ گناہگاروں کے لئے تنہا راہ ِ نجات ہے صرف ان لوگوں کے لئے ہو گی جن کا خدا اور اس کے دوستوں کے ساتھ تعلق ہو گا ۔
من ذالذی یشفع عندہ الاّ باذنہ ( بقرہ :۲۵۵)
نیز اس روز کسی کو عذر خواہی کی بھی خواہش نہیں ہو گی چہ جائیکہ کسی کے غیر معقول عذر کو قبول کیا جائے :
ولا یوٴذن لھم فیعتذرون ( مرسلات : ۳۶)
1۔”یوم تشق السماء“ درحقیقت”یوم یرون الملائکة“ کے گزشتہ جملے پر عطف ہے ۔ بنابریں اس جملے میں بھی ”یوم“کاتعلق اسی چیز سے ہوگا جس ست گزشتہ آیت میں تھا ”لابشری یومئذٍ“ والی آیت میں ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس کا تعلق ” اُذکر“ فعل مقدر سے ہے پھر” بالغمام“ میں یا تو ” ملابست“ کے معنی میں ہے اور پھر سببیت “ کے لئے جو آیات ِ بالا کی تفسیر میں منعکس ہو چکی ہے ۔
۲ ۔ تفسیر فی ظلال القرآن جلد۶ ص۱۵۴( اسی آیت کے ذیل میں )۔
۳۔ ادبی نقطہ نظر سے اس صورت میں ”با“ ملابست کے لئے ہوگی ۔
۴ ۔ اس صورت میں ”بالغمام “ میں ”با“ ” سببیت “کے معنیٰ میں ہے ۔
۵ ۔ تفسیر قرطبی جلد ۷ صفحہ ۳۹۔۴۷۔
سوره فرقان / آیه 27 - 29سوره فرقان / آیه 25 - 26
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma