خزانے اور باغات کیوں نہیں ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره فرقان / آیه 11 - 16شان نزول
جہاں تک گزشتہ آیات کی بات ہے ان میں قرآن مجید کے بارے میں کافروں کے کچھ اعتراضات کا تذکرہ ہے او ران کا جواب بھی دے دیا گیا ہے ۔ رہی زیر بحث آیات کی بات تو ان میں خود پیغمبرگرامیکی رسالت پر اعتراضات کا ذکر ہے اور ساتھ ہی ان اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے ۔
خدا فرماتا ہے :انہوں نے کہا کیوں یہ رسول کھاناکھاتا ہے اور کیوں بازار میں چلتا ہے ( وَقَالُوا مَالِ ھَذَا الرَّسُولِ یَاٴْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِی فِی الْاٴَسْوَاق)۔
یہ کیسا پیغمبر ہے جسے کھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور لین دین یا اشیائے ضرورت کی خریداری کے لئے بازار میں آتا جاتا ہے ؟یہ نہ تو انبیاء کا طریقہ کار ہے اور نہ ہی بادشاہوں کا شیوہ !اس کے باوجود وہ خدا ئی احکام کی تبلیغ اور سب پر حکومت بھی کرنا چاہتا ہے ۔
اصولی طور پر ا ن کا نظر یہ یہ تھا کہ باحیثیت اور معزز افراد اپنی ضروریات پورا کرنے کے لئے خود بازار نہ جا یا کریں بلکہ ایسے کاموں کے لئے اپنے نوکروں چاکروں کو بھیج دیا کریں ۔
وہ بھی کہتے :اس پر فرشتہ کیوں بھیجا گیا تاکہ وہ اس کی دعوت کی صداقت پر گواہ ہوتا اور اس کے ساتھ مل کر لوگوں کو ڈراتا( لَوْلاَاٴُنزِلَ إِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُونَ مَعَہُ نَذِیرًا )۔
چلو مان لیاکہ خدا کا رسول انسان بھی ہوسکتا ہے لیکن تہی دست او رنادار انسان ہی رسول کیوں ہو؟آخر اللہ نے اس کے لئے آسمان سے کوئی خزانہ کیوں نہیں بھیجایا کم از کم اس کا کوئی باغ کیوں نہیں ہے کہ جس سے وہ (پھل)کھاتا ( اٴَوْ یُلْقَی إِلَیْہِ کَنزٌ اٴَوْ تَکُونُ لَہُ جَنَّةٌ یَاٴْکُلُ مِنْھَا)۔
پھر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ غلط نتیجہ نکالتے ہوئے پیغمبر اکرم کو جنون کی تہمت دی جیسا کہ آیت کے آخر میں ہے اور ظالموں نے کہا:اے اس پر ایمان لانے والو! تم ایک دیوانے اور سحر زدہ شخص کی پیروی کررہے ہر ( وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلاَّ رَجُلًا مَسْحُورًا )۔
کیونکہ ان کا نظر یہ تھا کہ جادو گر لوگ انسان کے ہوش و حواس اور عقل کو اپنے قابومیں لے سکتے ہیں اور اس کی عقل سلب کرسکتے ہیں ۔
اوپر کی تمام آیات کو ملا کر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ مشرکین کو پیغمبر اکرم کی ذات پر چند بے بنیاد اعتراض تھے ، جن سے وہ قدم بقدم پیچھے ہٹتے گئے۔
ان کا پہلا اعتراض تو یہ تھا کہ رسول کو فرشتہ ہی ہو نا چاہئیے یہ جوکھاتا پیتا اور بازاروں میںچلتا پھرتا ہے یقینافرشتہ نہیں ہے ۔
پھر کہا:چلو مان لیا فرشتہ نہ سہی خدا کم از کم کوئی فرشتہ اس کی اعانت کے لئے بھیج دیتا۔
کچھ اور پیچھے ہٹے اور کہا ؛ یہ بھی نہ سہی کم از کم اسے ایک غریب آدمی تو نہیں ہونا چاہئیے تھا ایک خوشحال زمیندار ہو اس کے پاس ایک باغ ہو جس سے اپنی گزر اوقات کرے ۔
لیکن افسوس یہ چیز بھی اس کے پاس نہیں ہے اور پھر دعویٰ یہ کہ پیغمبر ہے!!
آخر میں وہ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکالتے تھے کہ ان حالات میں ا س کا اتنا بڑا دعویٰ اس بات کی دلیل ہے کہا س کی عقل ٹھیک نہیں ( نعوذباللہ)۔
بعد والی آیت ان سب کا جواب ان الفاظ میں دیتی ہے : دیکھ تو سہی کہ انھوں نے تیرے لئے کس طرح کی مثالیں بیان کی ہیں ۔اب اس حد تک گمراہ ہو چکے ہیں کہ انھیں تو راستہ بھی سجھائی نہیں دیتا (انظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوا لَکَ الْاٴَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلاَیَسْتَطِیعُونَ سَبِیلًا )۔
یہ جملہ اس حقیقت کی واضح تعبیر ہے کہ انھوں نے دعوتِ حق اور ا س قرآن کے مقابلے مین چند بے بنیاد اور فضول باتیں گھڑلی ہیں جبکہ قرآن کے مضامین خدا کے ساتھ تعلق اور ارتباط کے ناطق گواہ ہیں ۔ اس طرح سے وہ حقیقت کے چہرے پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں ۔ ادھر اُدھر کی کھوکھلی بے بنیاد باتیں کرتے ہیں اور منطقی دلیل کا جواب ایسی بے سروپا باتوں کے ذریعے دینا چاہتے ہیں کیونکہ :
۱۔آخر پیغمبر کو فرشتوں کی جنس سے کیوں ہونا چاہیئے ْ جب کہ اس کے بالکل بر عکس عقل اور دانش کا تقاضا یہ ہے کہ انسانوں کا رہبر انسان ہی کو ہونا چاہئیے تاکہ وہ ان کے تمام دکھ درد ، مشکلات، تکالیف ، ضروریات ِ زندگی اور مسائل ِ حیات کو اچھی طرح سمجھ سکے تمام مسائل میں ان کے لئے عملی نمونہ بن سکے اور لوگ ہر ہر قدم پر اس کی تاسی کرسکیں۔ فرشتہ نازل ہوتا تو یقینا یہ مقصد پورانہ ہوتا کیونکہ اگر وہ زاہد اور دنیا سے بے نیازی کی باتیں کرتاتو وہ تو خود فرشتہ ہے اور ان چیزوں سے بے نیاز ہے اگر عفت اور پاکدامنی کی تبلیغ کرتا تو فرشتہ ہونے کی بناپر قوت جنسی کے طوفان سے بے خبر ہوتا اسی طرح کے بیسیوں”اگر“ پیدا ہو جاتے ۔
۲۔ یہ کیوں ضروری ہے کہ ا س کے ہمراہ فرشتہ آیا ؟آیا قرآن جیسے عظیم معجزے کے باوجود بھی اس کی ضرورت باقی رہ گئی تھی اور حقائق کے ادراک کے لئے قرآن نا کافی تھا ؟
۳۔دوسرے لوگوں کی طرح کھاتا پیتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے تو اس طرح سے لوگوں کے ساتھ اس کے مراسم پیدا ہوتے ہیں، میل جول پڑھتا ہے اور ان کے دل کی گہرائیوں اور زندگی کی تہ تک پہنچتا ہے اور اپنا پیغام بہتر طور پر ان تک پہنچا سکتا ہے یہ بات اس کے لئے مضر نہیں بلکہ مفید اور معاون ہے
۴۔پیغمبر کی عظمت اور ان کی شخصیت نہ تو خزانوں کی مرہونِ منت ہے اور نہ ہی سر سزشاداب باغوں اور پھلوں کی یہ تو کفار کی گمراہ کن منطق ہے کہ وہ کسی کی شخصیت بلکہ تقرب ِ خدا کا دارو مدار سر مایہ داری پر ہی سمجھتے ہیں جبکہ انبیاء علیھم السلام مبعوث ہی اس لئے ہوئے ہیں تاکہ انسان کو یہ بتائیں کہ اے انسان !تیرے وجود کی عظمت مادی چیزوں کے ساتھ نہیں بلکہ علم و ایمان او ر تقویٰ کے ساتھ ہے ۔
۵۔وہ کس بناء پر آنحضرت کو ”مسحور“اور”مجنون“ سمجھتے تھے حالانکہ آپ کی تاریخ زندگی بتاتی ہے کہ آپ کی عقل کی کوئی نظیر نہیں ہے۔یہ آپ ہی عقل تھی جس کی وجہ سے دنیا میں ایک عظیم انقلاب بر پا ہوا اور ایک اسلامی تمدن کی بنیاد ڈالی گئی پھر کیونکر ممکن ہے کہ آپ کو ناروا اور اتہامات کے ساتھ متہم کیا جائے ہاں البتہ چونکہ آپ نے بت شکنی کا کارنامہ انجام دیا اور گزشتہ لوگوں کی اندھا دھند پیروی نہیں کی لہٰذا آپ کو ” مجنون “ کہا گیا۔
اس گفتگوسے واضح ہوتا ہے کہ یہاں پر ” امثال“ سے مراد ( خاص کر آیت میں موجود قرآئن کی وجہ سے )کمزور اور بے بنیاد باتوں کو حق کا جامہ پہنا کر اور منطقی اور مدلل صورت میں تبدیل کرکے پیش کرتے جبکہ حقیقت کچھ اور ہوتی(1) ۔
یہ نکتہ بھی قابل ِ غور ہے کہ آپ کے دشمن کبھی آپ کو” ساحر “کہتے تھے یعنی جادو گر اور کبھی ”مسحور“ یعنی جس پر جادو کیا گیا ہو اگر چہ بعض مفسرین کاخیال ہے کہ ”مسحور“ بمعنی ”ساحر“ کے ہوگا ( کیونکہ کبھی کبھی اسم مفعول،اسم فاعل کے معنی میں بھی آتا ہے ) لیکن ظاہر یہ ہے کہ ان دونوں کا آپس میں فرق ہے ۔
اگر آپ کو ساحر کہا جاتا تھا تواس کے لئے آپ کے کلام میں بہت زیادہ تاثیر تھی جو لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتی اور چونکہ وہ اس حقیقت کا اعتراف نہیں کرنا چاہتے تھے لہٰذا آپ پر جاگر ہونے کی تہمت لگاتے تھے ۔
لیکن ”مسحور“ کے معنی میں ہں ایسا شخص جس کی عقل پر جادو گروں نے قبضہ کرکے اس کے حواس مختل کردیئے ہوں یہ تہمت آپ پر ا س لئے لگائی جاتی تھی کہ آپ نے غلط رسومات ، ناجائز عادات اور خود غرضیوں کے خلاف قدم اٹھایا ۔
ان سب الزامات کا جواب پیچھے دیا جا چکا ہے ۔
یہاں پر یہ سوال پیش آتا ہے کہ خدا نے یہ کیوں فرمایاہے ” فضلوا فلا یستطیعون سبیلا ً“ یعنی وہ اس حد تک گمراہ ہو چکے ہیں کہ راہ ِ حق کی تلاش نہیں کر سکتے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ انسان اس وقت تک راہ حق کو تلاش کرپائے گا جب حق کا خواہش مند اور طلبگار ہو گا لیکن اگر کوئی شخص اپنی جہالت ، ہٹ دھرمی اور دشمنی کی بناء پر اپنے غلط اور گمراہ کن اندازوں کے تحت فیصلے کرکے تو نہ صرف یہ کہ وہ راہ حق کو تلاش نہیں کر سکے گا بلکہ حق کے مقابلے میں ڈٹ بھی جائے گا۔
سابقہ آیت کی طرح آخری آیت میں بھی خدا وند عالم روئے سخن پیغمبر اکرم کی طرف فرماتے ہوئے کفار و مشرکین کی باتوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہوئے اور انھیں ناقابل اعتنا ء سمجھتے ہوئے کہتاہے : بزرگ اور با بر کت ہے وہ خدا کہ جو چاہے تو تجھے اس سے بھی بہتر چیزیں عطا فرمادے جو یہ لوگ کہتے ہیں ۔ ایسے باغات جن کے نیچے نہریں جاری ہوں اور ایسے محلّات کہ جو عظیم ہوں ( تَبَارَکَ الَّذِی إِنْ شَاءَ جَعَلَ لَکَ خَیْرًا مِنْ ذَلِکَ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْھَارُ وَیَجْعَلْ لَکَ قُصُورًا )۔
تو کیا دوسرے لوگوں کو خدا کے علاوہ کسی او رنے باغات اور محلات عطا فرمائے ہیں۔
اور کیا اس کائنات اور اس کی نعمتوں اور زیبائشوں کو سوائے پر وردگار کے کسی اور نے تخلیق فرمایا ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں تو پھر کیا ان صفات کے مالک خدا کے لئے کوئی مشکل بات ہے کہ تجھے ان سے بہتر چیزیں عطا فرمائے ؟ یقینا وہ ایسا کرسکتا ہے
لیکن اس لئے ایسا نہیں کرتا کہ لوگ تیری شخصیت کو مال و دولت او رمحلات و باغات کا مر ہون ِ منت سمجھ کر تیری حقیقت شخصیت سے غافل نہ ہو جائیں خدا چاہتا ہے کہ تیری زندگی بھی عوام الناس ، مستضعف او رمحروم و مظلوم لوگوں کی سی ہوتا کہ تو ایسے لوگوں کے لئے جائے پناہ بن سکے ۔
خدا یہ کیوں فرماتا ہے کہ اس کے پاس ایسے باغات او ر محلات ہیں جو ان چیزوں سے بہتر ہیں جو کفار چاہتے ہیں کیونکہ خزانے بذاتہ مشکلات کو آسان نہیں کرتے بلکہ وہ بہت محنت اور زبر دست کو شش کے بعد باغات اور محلات میں تبدیل ہوتے ہیں اس کے علاوہ وہ یہ کہتے تھے کہ رسول للہ کے پاس ایک ایسا باغ ہوتا جس سے وہ اپنی گزر اوقات کرتے لیکن قرآن کہتا ہے کہ خدا وند عالم اپنے رسول کو باغات بھی عطا فرماسکتا ہے اور محلات بھی دے سکتا ہے لیکن ان کی بعثت اور رسالت کا مقصد کچھ اور ہے ۔
نہج البلاغہ کے” خطبہ قاصعہ“ میں اس بارے میں ایک نہایت عمدہ بیان آیا ہے ۔ امام علی بن ابی طالب علیہ السلام بیان فرماتے ہیں :
موسیٰ اپنے بھائی (ہارون) کے ساتھ فروعون کے دربار رمیں پہنچے دونوں کے بدن پر اونی لباس اور ہاتھوں میں عصا تھا اس حالت میں انہوں نے شرط پیش کی کہ اگر فرمان ِ الہٰی کے سامنے جھک جائے تو اس کی حکومت او رملک باقی اور اقتدار قائم و بر قرار رہے گا ۔ لیکن فرعون نے حاضرین سے کہا:
تمہیں ان کی باتوں پر تعجب نہیں ہوتا کہ میرے ساتھ شرط لگا رہے ہیں کہ میرے ملک کی بقا او رمیری عزت کا دوام ان کی مرضی کے ساتھ وابستہ ہے جبکہ ان کا اپنا حال یہ ہے کہ فقر و تنگدستی ان کی حالت اور صورت سے ٹپک رہی ہے ( اگر یہ سچ کہتے ہیں تو )خود انھیں طلائی کنگن کیوں نہیں دئے گئے ؟
فرعون نے یہ سب باتیں اس لئے کیوں کیں کہ وہ سونااور اس جمع آوری کو عظمت کی اور ادنیٰ لباس پہنے کو حقارت کی علامت سمجھا تھا ۔
لیکن اگر خدا انبیاء کو مبعوث کوتے وقت خزانوں کے اور سونے چاندی کی کانوں کے دروازے ان کے لئے کھولنا چاہتا اور سر سبز و شادابباغات ان کی ملکیت میں دینا چاہتا بھیج سکتا تھا لیکن ایسا کرنے سے امتحان اور آزمائش کا وجود ختم ہو جاتا ۔ سزا اور جزا کا کوئی فائدہ نہ ہوتا ۔خدا وعدے اور وعید بے اثر ہوتے ۔حق قبول کرنے والوں کے لئے آزمائے ہوئے لوگوں کا سا اجر نہ ہوتا ۔ مومنین نیکو کاروں کے سے ثواب کے مستحق نہ ہوتے اور الفاظ اپنا معنیٰ اور مفہوم کھو دیتے ۔
لیکن خدا وند عالم نے اپنے انبیاء کو عزم و ارادہ کے لحاظ سے قوی اور ظاہری لحاظ سے غریب اور کمزور بنا کر بھیجا ۔ ان کی غربت میں دل کی امیری اور آنکھوں کی قناعت شامل ہوتی ہے ہر چند کہ ظاہری تنگ دستی سے ان کی آنکھوں اور کانوں کو تکلیف ضرور ہوتی ہے ۔اگر انبیاء کے پاس بظاہر ایسی طاقت ہوتی جس سے کسی کو مخالفت کرنے کی جراٴت نہ ہوتی ان کے پا ساس قدر غلبہ ہوتا کہ کسی سے بھی مغلوب نہ ہوتے اور ایسی حکومت اور شان و شوکت کے مالک ہوتے کہ تما م دنیا کی آنکھیں انہی کی طرف لگی ہوتیں اور لوگ دور دراز سے رخت ِ سفر باندھ کر ان کی طرف کھنے چلے آتے تو ان کی قدر و قیمت عام لوگوں کے لئے تو بہت ہوتی اور متکبریں ان کے آگے سر تعظیم جھکادےتے اور اپنے ایمان کا اظہار کرتے لیکن ان کا یہ ایمان مقصد سے پیار اور دلچسپی کی بناء پر نہ ہوتا بلکہ اس خوف کی وجہ سے ہوتا جو ان پر غالب آتا یا مادیت سے محبت کی وجہ سے ہو تا ایسی صورت میں ان کی نیت ہر گز خالص نہ ہوتی بلکہ ان کے اعمال میں غیر خدا کی شرکت بھی ہوتی(2) ۔
اس نکتے کی طرف توجہ بھی ضروری ہے کہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ باغات اور محلات سے مرا دآخرت کے باغات او ر محل ہیں لیکن یہ تفسیر کسی بھی صورت میں آیت کے ظاہری مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتی(3) ۔
1۔ بہت سے مفسرین نے یہاں پر ” امثال“ کو ” تشبیہات“ کے معنی میں لیا ہے لیکن ا س کی وضاحت نہیں کی کہ یہاں پر مشرکین نے کون سی تشبیہ دی ہے بعض نے ”امثال“کامعنی ”صفات“کیا ہے کیونکہ ”مفردات راغب“میں ”مثل“ کاا یک معنی”توصیف “ بھی کیا گیا ہے اگر یہاں پر ” امثال“ سے مراد”صفات“ ہوں تو بھی بے بنیاد اور بے بنیاد اور بے پایہ صفات ہی ہوں گی ۔ کیونکہ آیت کی ابتدا اور انتہا میں کچھ ایسے قرائن پائے جاتے ہیں جو اسی بات پردلالت کرتے ہیں ایک طرف تو بطور تعجب کہتا ہے کہ ذرادیکھئے تو سہی کہ وہ کیسی مثالیں بیان کرتے ہیں اور دوسری طرف فرماتا ہے ” ایسی تو صیفات جو ان کی گمراہی کا سبب بن گئی ہیں اور و ہ پھر پلٹ جانے کے قابل بھی نہیں رہے “۔
2 ۔ خطبہ ۱۹۲ نہج البلاغہ ( خطبہ قاصعہ )۔
3 ۔اس طرح کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اس سے مراد دنیا کے محل اور آخرت کے باغات ہیں آیت میں فعل ماضی اور مضارع (جعل اور یجعل ) کو ایسے توہمات کا سبب نہیں بننا چاہیئے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ عربی ادب کے قواعد کے تحت جب افعال جملہ شرطیہ میں استعمال ہوتے ہیں تو ان کا زمانی مفہوم ختم ہوجاتا ہے ۔
سوره فرقان / آیه 11 - 16شان نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma