آیتِ نور

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۱۔ زیتون کا درختسوره نور / آیه 35 - 38
زیرِ نظر آیات کی تفسیر کے بارے میں بہت کچھ کہاگیا ہے، مسلمان مفسرین، فلاسفہ اور عرفاء میں سے ہر ایک نے اپنے انداز سے بات کی ہے گزشتہ آیات سے ان کا تعلق یہ ہے کہ قبل ازیں عفّت وپاکدامنی کے بارے میں مختلف انداز سے مختلف حوالوں سے بات ہوئی ہے، فحاشی اور بدکاری کی روک تھام کے لئے احکام دیئے گئے ہیں اور تمام احکامِ الٰہی کے اجراء کا ضامن ایمان ہے، ایمان ہی سرکش خواہشات پر کنٹرول کرسکتا ہے، انسانی جذبات میں سے قوی ترین جنسی جذبات ہیں اور ان پر کنٹرول ایمان کے بغیر ہی نہیں، لہٰذا آخرکار زیرِ نظر آیات میں بحث کا رخ اور اس کے قوی اثرات کی طرف موڑ دیا گیا ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے: الله آسمانوں اور زمین کا نور ہے (اَللهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ) ۔
کیسا پیارا، حسین اور جاذب اور قیمتی جملہ ہے، جی ہاں! الله ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے وہ خود نور ہے اور نور رساں بھی ہے ۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ نور سے یہاں مراد ہے ”ہدایت کرنے والا“۔
بعض نے مراد لیا ہے ”زینت بخشنے والا“۔
یہ سب معانی صحیح ہیں لیکن آیت کا مفہوم ان سے بھی وسیع تر ہے اس کی وضاحت یوں ہے:
قرآنِ مجید اور متعدد روایات میں لفظ ”نور“ کا اطلاق مختلف حوالوں سے ہوا ہے مثلاً:
۱۔ قرآن مجید: سورہٴ مائدہ کی آیت۱۵ میں قرآن مجید کو نور قرار دیا گیا ہے:
<قَدْ جَائَکُمْ مِنَ اللهِ نُورٌ وَکِتَابٌ مُبِینٌ
”الله کی طرف سے تمھارے لئے نور اور کتاب مبین آئی ہے“۔
اسی طرح سورہٴ اعراف کی آیت ۱۵۷ میں ہے:
<وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِی اٴُنزِلَ مَعَہُ اٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْمُفْلِحُونَ
”جو لوگ پیغمبر کے ساتھ نازل ہونے والے نور کی پیروی کرتے ہیں وہی فلاح یافتہ ہیں“۔
۲۔ ایمان: بعض مقامات پر ”ایمان“ کے لئے لفظ ”نور آیا ہے، جیسا کہ سورہٴ بقرہ کی آیت ۲۵۷ میں ہے:
<اَللهُ وَلِیُّ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ
”الله ان کا ولی ہے جو ایمان لائے ہیں انھیں (کفر وشرک) کی تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کے) نور کی طرف ہدایت کرتا ہے“۔
۳۔ ہدایتِ الٰہی: ہدایت اور روشن بینی کو بھی نور کہا گیا ہے، جیسا کہ سورہٴ انعام کی آیت ۱۲۲ میں آیا ہے:
<اٴَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاٴَحْیَیْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہُ نُورًا یَمْشِی بِہِ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَثَلُہُ فِی الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِنْھَا
”جو شخص مرچکا تھا اور ہم نے اسے زندہ کیا اس کے لئے نور ہدایت قرار دیاکہ جس کے باعث وہ لوگوں کے درمیان چل پھر سکتا ہے، کیا ایسا شخص اس شحص کی مانند ہوسکتا ہے کہ جو تاریکی میں ہو اور اس سے کبھی نہ نکل سکے“۔
۴۔ دین اسلام: دینِ اسلام کو بھی نور قرار دیا گیا ہے سورہٴ توبہ کی آیت ۳۲ میں ہے:
<وَیَاٴْبَی اللهُ إِلاَّ اٴَنْ یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ۔
”اور الله سوائے اس کے کچھ نہیںچاہتا کہ اپنے نور کو تکمیل تک پہنچائے، چاہے کافروں کو ناگوار ہی گزرے“۔
۵۔ پیغمبر اکرم: سورہٴ احزاب کی آیت ۴۶ میں رسول اکرم کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
<وَدَاعِیًا إِلَی اللهِ بِإِذْنِہِ وَسِرَاجًا مُنِیرًا
”ہم نے تجھے اذنِ الٰہی سے الله کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ قرار دیا ہے“۔
۶۔ آئمہ معصومین علیہم السلام: زیارت جامعہ میں آیا ہے:
خلقکم الله اٴنواراً فجعلکم بعرشہ محدقین.
الله نے آپ کو انوار خلق کیا اور آپ اس کے عرش کے گرد حلقہ ڈالے ہوئے تھے ۔
نیز اسی روایت میں :
واٴنتم نور الاخیار وھداة الابرار
آپ بہترین لوگوں کے لئے نور ہیں اور نیک انسانوں کے لئے ہدایت ہیں ۔
۷۔ علم ودانش: مشہور حدیث ہے:
العلم نور یقذفہ الله فی قلب من یشائ
علم نور ہے الله جسے چاہتا ہے اس کے دل میں ڈال دیتا ہے ۔
ایک طرف تو نورکے یہ مصادیق ہیں اور دوسری طرف نور کے امتیازات جن کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، اجمالی مطالعے سے واضح ہوجاتا ہے کہ نور کے یہ امتیازات ہیں:
۱۔ مادی دنیا میں نور لطیف ترین اور حسین موجودت میں سے ہے، اور یہ تمام زیبائیوں اور لطافتوں کا سرچشمہ ہے ۔
۲۔ ماہرین میں یہ بات مشہور ہے کہ عالمِ مادہ میں اور روشنی کی رفتار سب سے زیادہ ہے اس کی رفتار تیس لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے گویا نور پلک جھپکنے میں کرہٴ زمین کے ساتھ لگاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عظیم ستاروں کی مسافت روشنی کی رفتار کے ساتھ ناپی جاسکتی ہے اس کا ایک پیمانہ نوری سال ہے یعنی وہ مسافت جسے نور ایک سال میں طے کرتا ہے ۔
۳۔ نور اس جہان میں اجسام کی پہچان کا ذریعہ ہے اسی سے دنیا کے مختلف موجودات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اس کے بغیر کسی چیز کو دیکھا نہیں جاسکتا، لہٰذا ”نور“ ظاہر بھی ہے ”مظہر“ بھی (یعنی دوسروں کو ظاہر کرنے والا بھی ہے) ۔
۴۔ سورج کی روشنی ہماری دنیا کی اہم ترین روشنی ہے یہی روشنی پھولوں، پھلوں، کھیتوں اور سبزہ زاروں کی پرورش اور نشو ونما کا ذریعہ ہے بلکہ تمام زندہ موجودات کی بقاء اسی روشنی سے ہے اور ممکن ہے کہ کوئی موجود روشنی سے بالواسطہ یا بلاواسطہ استفادہ کیے بغیر زندہ رہ سکے ۔
۵۔ دورِ حاضر میں ثابت ہوچکا کہ تمام رنگ نورِ آفتاب یا اس سے مشابہ روشنیوں کا نتیجہ ہیں، روشنی کے بغیر سب تاریکی ہی ہے اور مطلق تاریکی میں کسی رنگ کا کوئی تصور ہی نہیں ۔
۶۔ تمام توانائیاں جو ہمارے گرد وپیش موجود ہیں (ایٹمی توانائی کے سوا) سب کا سرچشمہ سورج کی روشنی ہے، ہواوٴں کی رفتار۔بارش کی برسات، نہروں کی روانی، آبشاروں کا گرنا، خلاصہ یہ کہ تمام موجودات کی حرکت، اگر غور کیا جائے تو روشنی کے دم سے ہے ۔
حرارت کا سرچشمہ سورج کی روشنی ہے اسی کے سبب موجودات کاا بستر گرم ہے، درختوں کی لکڑی، پتھر کے کوئلے یا پٹرول وغیرہ سے حاصل ہونے والی تما م حرکات کا اصل مآخذ سورج کی تپش ہے کیونکہ تحقیقات کے مطابق یہ تمام چیزیں نباتات اور حیوانات سے حاصل ہوتی ہیں اور نباتات وحیوانات کی بقا کا داومدار سورج کی روشنی اور تپش پر ہے، لہٰذا اگر گاڑیوں اور مشینوں کی روانی بھی اسی برکت سے ہے ۔
۷۔ سورج کی روشنی طرح طرح کے جراثیم اور موذی موجودات کو ختم کرتی ہے اگر سورج کی بابرکت شعاعیں نہ ہوتیں تو کرہٴ زمین ایک بہت بڑے ”بیمارستان“ میں بدل جاتا اور اس کے تمام باسی ہمیشہ موت وحیات کی کشمکش میں رہتے ۔
خلاصہ یہ کہ اس عالمِ خلقت کی اس عجیب چیز یعنی نور پر جتنا بھی غور وفکر کریں اتنا ہی اس کے گراں بہا آثار اور عظیم برکات ظاہر ہوں گی۔
اس تمہید کو پیش نظر رکھیے اور سوچیے کہ اس عالم کے حسی موجودات میں سے اگر کوئی چیز تشبیہ وتمثیل کے لئے انتخاب کریں (اگرچہ اس مقامِ باعظمت ہر شبیہ ونظیر سے برتر ہے) تو کیا لفظ ”’نور“ کے علاوہ کسی سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔
وہ خدا کہ جو تمام عالمِ ہستی کو عالمِ ظہور میں لانے والا ہے، جو عالمِ آفرینش کو روشنی عطا کرتا ہے، تمام موجودات جس کے فرمان کی برکت سے زندہ ہیں اور تمام مخلوقات جس کے خوانِ نعمت پر پلتی ہیں وہی خدا کہ اگر لمحہ بھر کے لئے ان موجودات سے اپنی چشم پوش الطاف پھیر لے تو سب فنا کی تاریکی میں ڈوب جائیں اور یہ بات جاذب نظر ہے کہ موجود اس سے جس قدر ربط رکھتا ہے اسی قدر اس سے نورانیت اور روشنی حاصل کرتا ہے ۔ اسی لئے:
قرآن نور ہے چونکہ اس کا کلام ہے، دین اسلام نور ہے چونکہ اس کا آئین ہے، انبیاء ورسل نور ہیں چونکہ اس کے بھیجے ہوئے ہیں، آئمہ معصومینعلیہ السلام نور ہیں چونکہ انبیاء کے بعد اس کے دین کے نگہبان ہیں، ایمان نور ہے چونکہ اس سے رشتہ جوڑدیتا ہے، علم نور ہے چونکہ اس کی معرفت کا باعث ہے، لہٰذا ”اَللهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ“ ہے اور اگر لفظ نور کواس کے وسیع معنی میں لیں تو پھر الله کے لئے اس کا استعمال تشبیہ بھی نہیں ہوگا کیونکہ ”نور“ کا معنی ہے ”ایسا وجود جو خود ظاہر ہو اور دوسروں کو ظاہر کرنے والا ہو“ اس لئے کہ عالمِ خلقت میں کوئی چیز اس سے زیادہ آشکار نہیں اور جو کچھ اس کے علاوہ ہے وہ اس کے وجود کی برکت سے ظاہر ہے ۔
کتاب ”توحید“ میں ہے کہ کسی نے امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے ”اَللهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ“ کی تفسیر پوچھی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
ھاد لاھل السماوات وھاد لاھل الارض
وہ ہادی ہے اہلِ آسمان کا اور وہ ہادی ہے اہلِ زمین کا۔
درحقیقت ”ہدایت“ نور الٰہی کی ایک خصوصیت ہے لیکن اس کی فقط یہی خصوصیت نہیں، اسی طرح وہ تمام تفاسیر کہ جو اس آیت کے سلسلے میں مذکور ہیں انھیں ہماری مذکورہ بالا تفسیر میں جمع کیا جاسکتا ہے کیونکہ جو کچھ بھی کہا گیا ہے وہ اس بے نظیر نور اور بے مثل روشنی کا ایک رُخ ہے ۔
یہ بات جاذبِ نظر ہے ہے کہ دعائے جوشن کبیر کے سینتالیسویں حصّے میں صفات الٰہی یوں بیان ہوئی ہیں ۔
یا نور النور، یا منوّر النور، یا خالق النور، یا مدبر النور، یا مقدر النور، یا نور کل نور، یا نوراً قبل کل نور، یا نوراً بعد کل نور، یا نوراً فوق کل نور، یا نوراً لیس کمثلہ نور.
اے نور کی روشنی، اے روشنیوں کو نور عطا کرنے والے، اے نور کے خالق، اے نور کے ناظم، اے نور کے نظامِ تقدیر، اے سب روشنیوں کے نور، اے نور کہ جو سب روشنیوں سے پہلے ہے، اے نور کہ جو سب روشنیوں کے بعد ہے، اے نور کہ جو سب روشنیوں سے بالاتر ہے، اے نور کہ جس کی مثال کوئی نور نہیں ہے ۔
اس طرح تمام عالمِ ہستی کا مرکز وہی ہے اور سب نور اس کی ذات پاک کے نور تک جا پہنچتے ہیں ۔
اس بات کے بعد قرآن نورِ الٰہی کیفیت کو بیان کرنے کے لئے ایک عمدہ اور دقیق مثال پیش کرتا ہے فرماتا ہے: نور خدا کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی چراغ طاق میں رکھا ہو اور وہ چراغ ایک فانوس میں ہو اور وہ فانوس فروزاں ستارے کی مانند شفاف اور درخشاں ہوں (مَثَلُ نُورِہِ کَمِشْکَاةٍ فِیھَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِی زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ کَاٴَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ) ۔
اور یہ چراغ زیتون کے اس مبارک اور بابرکت درخت کے تیل سے جلایا جاتا ہو کہ جو نہ شرقی ہے نہ غربی (یُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَکَةٍ زَیْتُونِةٍ لَاشَرْقِیَّةٍ وَلَاغَرْبِیَّةٍ) ۔
اس کا تیل ایسا صاف اور خالص ہو کہ گویا آگ کے چھوئے بغیر شعلہ زن ہوجاتا ہو (یَکَادُ زَیْتُھَا یُضِیءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ) ۔
ایک نور ہے کہ جو نور کے اوپر ہے (نُورٌ عَلیٰ نُورٍ) ۔
الله جسے چاہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدایت کرتا ہے (یَھْدِی اللهُ لِنُورِہِ مَنْ یَشَاءُ) ۔
اور الله لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے (وَیَضْرِبُ اللهُ الْاٴَمْثَالَ لِلنَّاسِ) ۔
اور الله ہر چیز سے آگاہ ہے (وَاللهُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ(
اس مثال کی وضاحت کے لئے ذیل کے چند امور کی طرف توجہ ضروری ہے ۔
”مشکوٰة“ در اصل دیوار میں بنائے گئے سوراخ، طاق اور چھوٹی سی جگہ کے معنی میں ہے کہ جو دیوار میں چراغ رکھنے کے لئے بناتے ہیں تاکہ ہوا اور طوفان سے چراغ محفوظ رہیں کبھی کمرے کے اندر بھی چھوٹا سا طاقچہ بنایا جاتا ہے، یہ طاقچہ گھر کے صحن کی جانب بناکر آگے شیشے کے بنے ہوئے ایسے مکعب مستطیل کو بھی مشکوٰة کہتے ہیں جس کا ایک دروازہ ہوتا ہے اور اس کے اوپر ہوا کے نکلنے کے لئے سوراخ بھی ہوتا ہے اور اس میں چراغ رکھا جاتا ہے مختصر یہ کہ مشکوٰة چراغ کی حفاظت کے لئے بنائی گئی جگہ یا چیز کو کہتے ہیں کہ جو اسے ہوا اور طوفان کے تھپیڑوں سے بچاتی ہے اور چونکہ عا طور پر اسے دیوار میں بناتے ہیں لہٰذا یہ چراغ کی روشنی کو مرکوز اور منعکس کرتی ہے ۔
”زجاجة“ شیشے کو کہتے ہیں دراصل یہ لفظ صاف وشفاف پتھروں کے معنی میں ہے اور شیشہ بھی چونکہ پتھری ہی سے بنایا جاتا ہے اور صاف وشفاف بھی ہوتا ہے لہٰذا اسے بھی ”زجاجة“ کہتے ہیں یہاں یہ لفظ گلاب اور فانوس کے معنی میں ہے کہ جو چراغ کے سامنے یا اوپر رکھتے ہیں تاکہ اس کے شعلے کی بھی حفاظت کرے ۔ ہوا کی گردش کو بھی نیچے سے اوپر کی طرف منظم رکھے اور اس کی روشنی میں بھی اضافہ کرے ۔
”مصباح“ چراغ کو کہتے ہیں ۔
”یُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَکَةٍ زَیْتُونِةٍ لَاشَرْقِیَّةٍ وَلَاغَرْبِیَّةٍ“ یہ جملہ خالص اور توانائی کے حامل روغن کی طرف اشارہ ہے جو زیتون کے پربرکت درخت سے اس چراغ کے لئے لیا جاتا ہے اور جلانے کے لئے ایک بہترین روغ ہے جبکہ اسے ایسے درخت سے حاصل کیا گیا ہے کہ جو نور آفتاب میں ہر طرف برابر سے پھلا پھولا اور بڑھا پھیلا ہوا ہو، یہ درخت نہ باغ کی مشرقی جانب دیوار کے ساتھ ہے اور نہ مغربی جانب کیونکہ اگر اس پر صرف ایک طرف سے روشنی پڑے تو اس کا پھل بھی نیم پکّا اورنیم کچّا ہوگا لہٰذا اس کا روغن بھی اچھا اور صاف نہیں ہوگا۔
اس گفتگو سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صحیح اور اچھی روشنی کے حصول کے چار عوامل ہیں ۔
۱۔ ایسا چراغدان یا طاق کہ جو اس کی ہر طرف سے حفاظت کرے، اس کی روشنی میں کمی نہ کرے بلکہ اسے زیادہ متمرکز کرنے میں مدد دے ۔
۲۔ ایسا گلاب یا فانوس کہ جو گردش ہوا کو شعلے کے گرد منظّم کرے لیکن ایسا شفاف ہو کہ روشنی کے گزرنے میں حائل نہ ہو ۔
چراغ کہ جس کی روشنی کا مرکز اس کا فتیلہ یا فیتا ہے ۔
۴۔ صاف، خالص، عمدہ اور توانائی کا حامل روغن اور تیل کہ جو جلنے کے لئے ایسا تیار ہو کہ گویا شعلے سے مَس ہوئے بغیر بھڑک اُٹھے ۔
یہ سب کچھ ان کے ظاہری پہلو کا بیان تھا دوسری طرف بزرگ مفسرین نے نور کے لئے بیان کی گئی اس تشبیہ کا باطنی مفہوم بھی بیان کیا گیا ہے، اس سلسلے میں مختلف تفسیریں ہیں مثلاً:
بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد نورِ ہدایت ہے کہ جسے الله نے مومنین کے دلوں میں روشن کیا ہے یعنی وہ ایمان ہے کہ جو الله نے مومنین کے دلوں میں جاگزیں کردیا ہے ۔
بعض نے خیال کیا ہے کہ اس سے مراد قرآن کا معنی ہے کہ جو انسان کے دل کے اندر نور افگن ہوتا ہے ۔
بعض نے اس تشبیہ کو ذاتِ پیغمبر کی طرف اشارہ سمجھا ہے ۔
بعض نے توحید وعدلِ الٰہی کی طرف اشارہ جانا ہے ۔
بعض نے سمجھا ہے کہ اس سے مراد روحِ اطاعت وتقویٰ ہے کہ جو ہر خیر وسعادت کا سرچشمہ ہے ۔
درحقیقت قرآن اور حدیث میں باطنی نور کے جتنے مصادیق آئے ہیں انھیں تفسیر کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ان سب کی روح ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے نور ہدایت کہ جس کا سرچشمہ قر آن وحی اور وجود انبیاءعلیہ السلام ہے، دلاائل توحید سے جس کی حفاظت وتقویت ہوتی ہے جس کا نتیجہ حکمِ الٰہی کے سامنے سرتسلیم خم کرنا اور تقویٰ ہے ۔
نور ایمان جو مومنین کے دل میں ہے انھی چار عوامل کا حامل ہے کہ جو ایک روشن چراغ میں موجود ہیں ۔
”مصباح“ ایمان کا وہ شعلہ ہے کہ جو مومن کے دل میں بھڑکتا ہے اور نورِ ہدایت اس سے ضوفشاں ہوتا ہے ۔
”دجاجة“ فانوس مومن کا دل ہے کہ جو ایمان کو اپنے وجود میں منظّم کرتا ہے ۔
”مشکوٰة“ طاق مومن کا سینہ ، یا دوسرے لفظوں میں اس کا علم، فکر اور آگہی بنے کہ جو اس کے ایمان کو طوفان اور ہوائے تند سے بچاتی ہے ۔
”شَجَرَةٍ مُبَارَکَةٍ زَیْتُونِةٍ“ وحی الٰہی ہے کہ جس کا نچوڑ اور روغن انتہائی صاف وپاک ہے اور اس کے ذریعے مومنین کا ایمان شعلہ ور اور بابرکت ہوتا ہے ۔
درحقیقت یہ نور خدا وہی نور ہے کہ جو آسمان اور زمین کو منوّر کرتا ہے، یہ نور قلبِ مومن سے ضوفشان ہوتا ہے اور ان کے سارے وجود کو روشن کردیتا ہے اور جو دلائل انھوں نے عقل وبصیرت سے حاص کئے ہیںوہ نورِ الٰہی کی آمیزش سے ”نور علیٰ نور“ کا مصداق بن جاتے ہیں اور یہی وہ منزل ہے کہ جہاں اہل اور تبار دل نورِ الٰہی سے ہدایت پاتے ہیں اور ”یَھْدِی اللهُ لِنُورِہِ مَنْ یَشَاءُ“ اپنی عملی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔
لہٰذا نور الٰہی کی ہدایت اور نورِ ہدایت وایمان کے لئے معارف، آگاہی، خود سازی اور اخلاقِ حسنہ کی ضرورت ہے کہ جو مشکوٰة کی طرح اس کی حفاظت کرے اور اس کے لئے دلِ آمادہ کی ضرورت ہے کہ جو ”زجاجہ“ کی طرح اس پروگرام کو منظّم کرے اور وحی کی امداد کی بھی ضرورت ہے کہ ”شَجَرَةٍ مُبَارَکَةٍ زَیْتُونِةٍ“ کی طرح اسے توانائی بخشے اور یہ نور وحی شرقی وغربی مادی انحراف اور آلودگی دور رہے ورنہ یہ روشنی گہنا جائے گی یہ روغن ایسا صاف اور ہر ملاوٹ اور خرابی سے پاک ہو کہ کسی دسوری چیز کی اختیاج کے بغیر تمام انسانی صلاحیتوں کو جمع کرلے اور ”یَکَادُ زَیْتُھَا یُضِیءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ“ کا مصداق بنے ۔
ہر قسم کی تفسیر بالرائے، پہلے سے خو کردہ فیصلے، ذاتی پسند وناپسند، ٹھونسے گئے عقیدے، دائیں بائیں طرف میلان اور ہر قسم کے خرافات کہ جو اس مبارک شجر کے روغن کو آلودہ کریں اس چراغ کی روشنی کم کردیتے ہیں اور کبھی اسے بالکل ہی بے نور کردیتے ہیں ۔
یہ ہے وہ مثال کہ جو الله نے اس آیت میں اپنے نور کے لئے بیان کی ہے اور وہ ہر چیز سے آگاہ ہے ۔
جو کچھ ہم نے بالا سطور میں کہا ہے اس سے یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ آئمہ معصومین علیہ السلام کی روایات میں اس اس آیت کہ جو تفسیر بیان ہوئی ہے وہ اس کے واضح مصادیق کا بیان ہے نہ کہ مفہوم آیت اس میں منحصر ہے مثلاً روایت آئمہ علیہ السلام میں ”مشکوٰة“ سے مراد پیغمبر اسلام کا دل ہے، ”مصباح“ سے نور علم، ”زجاجہ“ سے آپ کے وصی حضرت علیعلیہ السلام اور ”شجر مبارکہ“ سے اس خاندان کے جدّبزرگوار حضرت ابراہیم خلی الله مراد لئے گئے ہیں، اسی طرح ”لَاشَرْقِیَّةٍ وَلَاغَرْبِیَّةٍ“ سے یہود ونصاریٰ کی طرف ان کے میلان کی نفی کی گئی ہے، یہ تفسیر بھی درحقیقت اسی نورِ ہدایت وایمان کا ایک رخ پیش کرتی ہے اور اس کا ایک واضح مصداق پیش کرتی ہے ۔
اسی طرح بعض مفسرین نے اس نورِ الٰہی سے قرآن، دلائلِ عقلی یا ذاتِ پیغمبر اسلام مراد لی ہے، یہ تفسیر بھی مندرجہ بالا تفسیر سے ہم آہنگ ہے ۔
یہاں تک تو اس نورِ الٰہی اور نور ہدایت وایمان کی خوبیاں اور امتیازات بیان ہورہے تھے اسے ایک روشن چراغ کی تشبیہ سے واضح کیا گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ روشن چراغ کہا ںہے اور اس کا مقام کونسا ہے ۔
اس کے لئے اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے: یہ مشکوٰة ایسے گھروں میں ہے کہ جن کی دیواریں بلند کرنے کا الله نے حکم دیا ہے (تاکہ دشمنوں، شیطانوں اور ہوس بازنگاہوں سے امان میں ہوں) (فِی بُیُوتٍ اٴَذِنَ اللهُ اٴَنْ تُرْفَعَ) ۔
وہ گھر کہ جن میں نامِ خدا کا تذکرہ ہوتا ہے (جن گھروں میں آیاتِ قرآن کی تلاوت ہوتی ہے اور حقائقِ وحی یان ہوتے ہیں (وَیُذْکَرَ فِیھَا اسْمُہُ) ۔
جیسا کہ ہم نے بھی تفسیر کی ہے بہت سے مفسرین نے اس آیت کو گزشتہ آیت سے مربوط جانا ہے(1) لیکن بعض نے اسے بعد والے جملے سے مربوط سمجھا ہے ہر گز صحیح معلوم نہیں ہوتا۔
لیکن لفظ ”فیھا“ کی موجود گی میں یہ تفسیر مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ تکرار شما رہوگا، علاوہ ازیں اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں جو روایات مروی ہیں یہ ان سے بھی ہم آہنگ نہیں ہے ۔(غور کیجئے گا) ۔
رہا یہ سوال جو بعض نے کیا ہے کہ یہ روشنی چراغ ان گھروں میں ہوں کہ جن کی خصوصیات اس آیت میں بیان ہوئی ہیں تو اس کا فائدہ ہے تو اس کا جواب واضح ہے کیونکہ اگر گھر کی دیواریں بلند ہوں اور مضبوط دل، بیدار ہوشیار مرد اس کی پاسداری کرتے ہوں تو ایسا گھر اس روشن چراغ کی حفاظت کا ضامن ہے، علاوہ ازیں جنھیں ایسے نور کی جستجو ہوگی وہ اس کے گھر سے آگاہ ہوکر جلدی اس کی جانب لپکیں گے ۔
رہا یہ سوال کہ ان گھروں سے کون مراد ہیں تو اس کا جواب آیت میں موجود ہے، ارشاد ہوتا ہے:

”صبح وشام ان گھروں میں تسبیح الٰہی ہوتی ہے“(یُسَبِّحُ لَہُ فِیھَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ)(2) ۔
ایسے جوانمرد کہ جنھیں تجارت اور خیرد وفروخت یادِ خدا، قیامِ نماز اور ادائے زکات سے غافل نہیں رکھ سکتی (رِجَالٌ لَاتُلْھِیھِمْ تِجَارَةٌ وَلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِیتَاءِ الزَّکَاةِ) ۔ وہ اس دن سے ڈرتے ہیں کہ جب دل اور آنکھیں زیر وزبر ہوجائیں گی (یَخَافُونَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیہِ الْقُلُوبُ وَالْاٴَبْصَارُ(
یہ خصوصیات نشاہدہی کرتی ہیں کہ یہ ”بیوت“ وہی مراکز ہیں کہ جنھوں نے حکمِ خدا سے استحکام پایا ہے اور یادِ الٰہی کا مرکز بنے ہیں اور وہاں سے حقائق اسلام اور احکامِ الٰہی کی نشر واشاعت ہوتی ہے اس وسیع معنی کا مصداق مساجد اور انبیاءعلیہ السلام واولیاء کے گھر ہیں، بالخصوص پیغمبر اکرم اور امیر المومینن حضرت علیعلیہ السلام کا گھر ان گھروں میں شامل ہیں ۔

”آصال“ ”اصل“ (بروزن ”رُسُل“) کی جمع ہے جبکہ ”اصل“ بھی ”اصیل“ کی جمع ہے کہ جس کا معنی ہے ”عصر“‘۔
رہا یہ سوال کہ ”غدو“ مفرد کی شکل میں اور ”آصال“ جمع کی صورت میں کیوں ہے تو فخز رازی کے مطابق ”غدو“ مصدری پہلو رکھتی ہے اور مصدر کی کبھی جمع نہیں باندھی جاتی۔
یہ جو بعض نے انھیں مساجد اور انبیاءعلیہ السلام کے گھر اور ایسے ہی دوسرے گھروں میں منحصر کیا ہے ان کے پاس اس کی دلیل نہیں ہے البتہ بعض ایسی روایات ہیں کہ جن میں بعض خاص گھروں کی نشاندہی کی گئی ہے مثلاًامام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
”ھی بیوت الانبیاء وبیت علی منھا“
”یہ انبیاء کے گھروں کی طرف اشارہ ہے اور علی علیہ السلام کا گھر بھی اس زمرے میں آتا ہے“(3)۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے بار ے میں ہے کہ: اس آیت کی تلاوت کے وقت آنحضرت سے پوچھا گیا: ان سے کون سے گھر مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا:
”بیوت الانبیاء“
”نبیوں کے گھر“
ابوبکر نے (علی علیہ السلام وفاطمہ علیہ السلام کے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) پوچھا: کیا یہ گھر بھی اس میں شامل ہے؟
رسول الله نے فرمایا:
نعم من افاضلھا
ہاں یہ تو اس گھر کے افضل ترین گھروں میں سے ہے (4) ۔
یہ سب روشن اور واضح مصادیق کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ روایات کا معمول یہ ہے کہ یہ تفسیر کے موقع پر روشن اور واضح مصادیق کی نشاندہی کرتی ہے ۔
جی ہاں جو مرکز حکمِ خدا سے قائم ہوا ہے اور اس میں ذکر خدا ہوتا ہے اور اس میں ایسے با ایمان جوانمرد ہیں کہ جنھیں مادّی زندگی یاد خدا سے غافل نہیں کردیتی اور وہ اس گھر میں الله کی تسبیح وتقدیس میں مشغول رہتے ہیں ایسے گھرانوار الٰہی کے چراغدان اور ایمان وہدایت کے فانوس ہیں درحقیقت ان گھروں کی یہ خصوصایت ہیں ۔
۱۔ ان کی بنیاد حکم خدا سے رکھی گئی ہے ۔
۲۔ ان کی بنیاد مستحکم اور دیواریں ایسی بلند ہیں کہ شیطان اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتے ۔
۳۔ وہ یادِ الٰہی کا مرکز ہیں ۔
۴۔ ان کی نگہبانی ایسے جواں مرد کرتے ہیں کہ جو صبح وشام تسبیح خدا میں مشغول رہتے ہیں اور پُرفریب دنیا کی کشش انھیں حق سے غافل نہیں کرتی۔
ان خصوصیات کے باعث یہ گھر ہدایت و ایمان کا سرچشمہ ہیں ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ اس آیت میں ”تجارت“ کا ذکر بھی آیا ہے اور ”بیع“ کا بھی جبکہ ظاہراً دونوں کا معنی ایک ہی ہونا چاہیے لیکن ممکن ہے کہ ان کا فرق اس لحاظ سے ہو کہ تجارت ایک مسلسل کام ہے جبکہ ”ربیع“ ایک وقتی کام ہے ۔
اس امر کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ یہ نہیں فرمایا گیا کہ وہ ایسے مرد ہیں کہ جو تجارت اور ربیع کی طرف نہیں جاتے بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ تجارت اور بیع انھیں یادِ خدا، قیامِ نماز اور ادائے زکات سے غافل نہیں کردیتی وہ ہمیشہ قیامت اور عدالتِ الٰہی کے خیال سے ڈرتے رہتے ہیں کیونکہ قیامت کا دن وہ ہے کہ جب دل اور آنکھیں زیر وزبر ہوجائیں گی (توجہ رہے کہ ”یخافون“ فعل مضارع ہے اور روزِ قیامت سے ان کے مسلسل خوف پر دلالت کرتا ہے، ایسا خوف کہ جو انھیں ذمہ داریوں کا احساس دلائے رکھتا ہے) ۔
زیرِ بحث آخری آیت میں نور ہدایت کے ان پاسداروں اور عاشقانِ حق کا اجرا بیان کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: یہ اس بناء پر ہے کہ الله انھیں ان کے بہترین اعمال کی جزا دے اور اپنے فضل سے ان کے اجر میں اضافہ بھی کردے (لِیَجْزِیَھُمْ اللهُ اٴَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَیَزِیدَھُمْ مِنْ فَضْلِہِ) ۔
اور تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ جو لوگ فیضان الٰہی کے لائق ہیں ان کے لئے الله کا فیضان محدود نہیں ہے اور خدا جسے چاہتا ہے رزقِ بے حساب دیتا ہے اور اسے اپنی لامتناہی نعمات سے بہرہ مند کرتا ہے (وَاللهُ یَرْزُقُ مَنْ یَشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ) ۔
اس آیت میں ”اٴَحْسَنَ مَا عَمِلُوا“ سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں بعض نے کہا ہے کہ نیک اعمال کی طرف اشارہ ہے چاہے وہ واجبات ہوں یا مستحبات اور چھوٹے ہوں یا بڑے ۔
بعض دوسرے معتقد ہیں یہ اس طرف اشارہ ہے کہ الله تعالیٰ کارِ خیر کا اجر کبھی دس گنا عطا فرماتا ہے کبھی سات سو گنا اور کبھی اس سے بھی زیادہ جیسا کہ سورہٴ انعام کی آیت ۱۶۰ میں ہے:
<من جاء بالحسنة فلہ عشر امثالھا
”جو شخص نیک کام کے ساتھ بارگاہِ خدا میں پیش ہوگا اسے اس کا دس گناہ اجر ملے گا“۔
نیز سورہٴ بقرہ کی آیت ۲۶۱ میں راہِ خدا میں خرچ کرنے کا اجر سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ ذکر ہوا ہے ۔
اس جملے کی تفسیر کے بارے میں یہ احتمال بھی ہے کہ مراد یہ ہو کہ الله ان کے تمام اعمال کی جزاء ان کے بہترین اعمال کے معیار کے مطابق دے گا یہاں تک کہ ان کے کم اہم اور درمیانے درجے کے اعمال بھی اجر میں برابری ضروری نہیں ہے لیکن جس وقت الله اپنا فضل کرنے پر آتا ہے تو پھر عنایات بے حساب ہیں کیونکہ اس کی ذات پاک غیر محدود ہے اس کی نعمتیں بھی لامتناہی ہیں اور اس کا کرم بھی بے پایاں ہے ۔

1۔ آیت کی تقدیر یوں تھی :
ھٰذا المشکوٰ ۃ فی بیوۃ ۔۔۔
یا۔۔۔ ھٰذا المصباح فی بیوت ۔۔۔
یا ۔۔۔ ھٰذا الشجرۃ المبار کۃ فی بیوت۔۔۔
یا ۔۔۔ نور اللہ فی بیوت ۔۔۔
جبکہ دوسری تفسیرکے مطابق فی بیوت کے بعد کو یسبح کے متعلق جانتے ہیں کہ جس سے آ ئت کامفہوم ہوں گا ۔
ایسے گھروں میں کہ جن کی دیواریں بلند کرنے کااللہ نے حکم دیاہے ،جو نمروصبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں ۔لیکن لفظ فیھا کی موجود گی میں یہ تفسیر مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ تکرار شمارہوگا ۔علاوہ ازیں اس آ یت کی تفسیر کے ضمن میں جوروایات مروی ہیں یہ ان سے بھی ہم آّہنگ نہیں ہے ( غورکیجئے گا )۔
لیکن لفظ ”فیھا“ کی موجود گی میں یہ تفسیر مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ تکرار شما رہوگا، علاوہ ازیں اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں جو روایات مروی ہیں یہ ان سے بھی ہم آہنگ نہیں ہے ۔(غور کیجئے گا) ۔
2۔ ”غدو“ (بروزن ”علو“) صبح کے معنی میں ہے، مفردات راغب نے کہا ہے: ”غدو“ دن کے ابتدائی حصّے کو کہا جاتا ہے اور قرآن میں یہ لفظ ”اٰصال“ کے مقابلے میں آیا ہے جبکہ ”غداة“ ”غشی“ کے مقابلے میں آیا ہے ۔
ﺁصال اصل ( بروزن رکھُل ) کی جمع ہے جبکہ اصل : بھی اصیل کی جمع ہےکہ جس کامعنی ہے عصر۔ رہایہ سوال کہ غدو مفر کی شکل میں اور آصال جمع کی صورت میں کیوں ہے تو فخر رازی کے مطابق غدو مصدری پہلو کی رکھتاہے اورمصدر کی کبھی جمع نہیں بابدھی جاتی ۔
3۔ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۲۰۷.
4 ۔ تفسیر مجمع البیان، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔

چند روایات

اس روایت سے متعلق ضروری نکات تفسیری بحث میں آچکے ہی البتہ کچھ روایات ایسی ہیں کہ جن کا ذکر تکمیل گفتگو کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے، انھیں ہم ذیل میں پیش کررہے ہیں
۱۔ کتاب روضة الکافی میں ہے کہ آیتِ نور کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”ان المشکوٰة قلب محمد (ص) والمصباح النور الذی فیہ العلم، والزجاجة قلب علی اٴ نفسہ“.
”مشکوٰة“ قلب محمد (ص)ہے ، ”مصباح“ نور علم وہدایت ہے اور ”زجاجہ“ خود علیعلیہ السلام ہیں یا ان کا دل کہ رحلتِ رسول کے بعد وہ ”مصباح“ قرار پایا(1) ۔
۲۔ ایک حدیث ”توحید صدوقۺ“ میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
”ان مشکوٰة نور العلم فی صدر النبی (ص) والزجاجة صدر علی.... ونور علی نور امام موٴید بنور العلم والحکمة فی اثر الامام من آل محمد، وذلک من ولدک آدم الیٰ اٴن تقوم الساعة، فھٰوٴلاء الاوصیاء الذین جعلھم الله عزوجل خلفاء فی ارضہ وحججہ علی خلقہ، لاتخلوا الارض فی کل عصر من واحد منھم“.
”مشکوٰة“ رسول الله کے سینے میں نورِ علم ہے، ”زجاجہ“ علیعلیہ السلام کا سینہ ہے اور ”نور علیٰ نور“ آلِ محمد میں سے آئمہ اطہارعلیہ السلام ہیں کہ جو یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور نورِ علم سے ان کی تائید کی گئی ہے اور یہ سلسلہ خلقتِ آدم سے اختتامِ عالمِ تک جاری ہے یہ وہی اوصیاء ہیں کہ جنھیں الله نے زمین میں خلفاء قرار دیا ہے اور بندوں پر انھیں اپنی حجت بنایا ہے اور زمین نہ کبھی ان کے وجود سے خالی تھی اور نہ کبھی خالی ہوگی(2)۔
۳۔ ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام نے ”مشکوٰة“ جناب فاطمہ سلام الله علیہا، ”مصباح“ امام حسن علیہ السلام اور ”زجاجہ“ امام حسین علیہ السلام کو قرار دیا ہے(3) ۔
البتہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ آیات وسیع مفہوم رکھتی ہیں اور مندرجہ بالا رویاات میں سے ہر ایک میں اس کے کسی نہ کسی واضح مصداق کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان روایات سے آیت کی عمومیت ختم نہیں ہوتی لہٰذا ان روایات میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے ۔
۴۔ ایک روایت میں ہے کہ: امام باقر علیہ السلام بصرہ کے ایک مشہور فقیہ سے بات کررہے تھے دورانِ گفتگو اس نے اظہارِ تعجب کیاکہ مجلس میں ایک خاص رعب اور دبدبے کی کیفیت ہے، امامعلیہ السلام نے جواب میں فرمایا: کیا تم جانتے ہوکہ کہاں بیٹھے ہو؟ جن کے بارے میں الله نے فرمایا ہے:
<فِی بُیُوتٍ اٴَذِنَ اللهُ اٴَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیھَا اسْمُہُ یُسَبِّحُ لَہُ فِیھَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ، رِجَالٌ لَاتُلْھِیھِمْ تِجَارَةٌ وَلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِیتَاءِ الزَّکَاةِ
اس کے بعد فرمایا:
فاٴنت ثم ونحن اٴولٰئک
تو وہی ہے کہ جو تونے کہا ہے (یعنی بصرہ کا ایک فقیہ) اور ہم یہ ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن نے کہا ہے ۔
قتادہ نے جواب میں کہا:
صدقت والله، جعلنی اللهفداک، والله ما ھی بیوت حجارة ولاطین.
والله آپ نے سچ فرمایا، میں آپ پر قربان جاوٴں، بخدا اس آیت میں پتھر اور مٹی کے گھر مراد نہیں ہیں (بلکہ وحی، ایمان اور ہدایت کے گھر مراد ہیں)(4) ۔
۵۔ وہ مرادنِ خدا کہ جو وحی وہدایت کے پاسدار ہیں، ان کے بارے میں ایک حدیث میں ہے:
ھم التجار الذین لاتلھیھم تجارة ولابیع عن ذکر الله، اذا دخل مواقیت الصلوٰة ادوا الی الله حقہ فیھ.
وہ تاجر ہیں کہ جنھیں یاد خدا سے تجارت اور خرید وفروخت غافل نہیں کرتی جب نماز کا وقت آپہنچتا ہے تو اس کا حق ادا کرتے ہیں (5) ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ اصلاحی اور مثبت اقتصادی امور سرانجام دیتے ہیں لیکن ان کے سارے کام نامِ خدا کے تابع ہیں اور کسی چیز کو اس پر مقدم نہیں کرتے ۔
1۔ نور الثقلین، زیر بحث آیت کے ذیل میں، ج۳، ص۶۰۲ (کچھ تلخیص کے ساتھ(
2۔ ایضاً ج۳، ص۶۰۲ ، ۶۰۳(کچھ اختصار کے ساتھ(
3۔ ایضاً ج۳، ص۶۰۲ ، ۶۰۳(کچھ اختصار کے ساتھ(
4۔ نور الثقلین، ج۳، ص۶۰۹.
5۔ نور الثقلین، ج۳، ص۶۰۹.
۱۔ زیتون کا درختسوره نور / آیه 35 - 38
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma