۱۔ شادی خدائی حکم ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۲۔ ”وَالصَّالِحِینَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ“ کی تفسیرآسان شادی بیاہ کی ترغیب
موجودہ زمانے میں شاید بیاہ میں اس قدر غلط رسمیں بلکہ خرافات داخل ہوگئی ہیں کہ نوجوانوں کے لئے یہ ایک نہایت پیچیدہ اور دشوار معاملہ بن گیا ہے لیکن ان رسموں سے قطع نظر شادی ایک فطری اور قانونِ آفرینش سے ہم آہنگ تقاضا ہے، انسانی نسل کی بقاء، جسم وروح کی تسکین اور زندگی کی بہت سی مشکلوں کے حل کے لئے صحیح طریقے سے شادی ناگزیر ہے، اسلام کہ جو ہمیشہ فطرت سے ہم آہنگ قدم اٹھاتا ہے اسنے اس سلسلے میں جاذب اور موٴثر باتیں کی ہیں ۔
پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی ایک مشہور حدیث ہے:
”تناکحوا وتناسلوا فانّی اباھی بکم الامم یوم القیامة ولو بالسقط“.
شادی کرو تاکہ نسل بڑھے کیونکہ روز قیامت تمھاری تعداد کی کثرت پر فخر کروں گا، یہاں تک کہ سقط شدہ بچوں پر بھی (1) ۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:
”من تزوّج فقد اٴحرز نصف دینہ فلیتق الله فی النصف الباقی“.
جس نے شادی کی اس نے اپنا آدھا دین محفوظ کرلیا جبکہ باقی آدھے کے بارے میں الله سے ڈرتا رہے اور تقویٰ اختیار کرے (2) ۔
یہ اس لئے کہ انسان میں جنسی قوّت بہت قوی اور سرکش ہوتی ہے، تنہا یہ قوت باقی قوتوں اور صلاحیتوں کا مقابلہ کرتی ہے اور اس حوالے سے انسان کا انحراف اس کے آدھے دین وایمان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے ۔
ایک اور حدیث میں رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں:
”شرارکم عزابکم“.
تم میں سے بدترین افراد غیر شادی اور مجرّد ہیں(3)۔
اسی بناء پر زیرِ بحث آیات میں متعدد روایات مسلمانوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ غیر شادی افراد کی شادی کروانے میں ہر قسم کی ممکنہ مدد کریں، خصوصاً اسلام نے اولاد کے بارے میں باپ پر سخت ذمہ داری عائد کی ہے اور جو باپ اس اہم مسئلے کی پرواہ نہیںکرتے انھیں اولاد کی کجروی کے جرم میں شریک شمار کیا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے منقول ہے:
”من اٴدرک لہ ولد وعندہ ما یزوجہ فلم یزوجہ، فاحدث فالاثم بینھما“.
جس کا بیٹا بالغ ہوجائے اور وہ شادی کے وسائل رکھتا ہو اور پھر بھی ا س کے لئے اقدام نہ کرے اور اس کے نتیجے میں اس کا بیٹا کسی گناہ کا مرتکب ہوجائے تو یہ گناہ دونوں کا لکھا جائے گا (4) ۔
اسی بناء پر تاکیدی حکم دیا گیا ہے کہ شادی کے اخراجات سادہ اور آسان ہونا چاہیں، چاہے وہ حق مہر کی صورت میں ہوں یا کسی اور صورت میں تاکہ اخراجات شادی کی راہ میں حائل نہ ہوں، عموماً زیادہ حق مہر کا مسئلہ آمدنی والے افراد کی شادی کے راستے میں حائل ہوجاتا ہے اس سلسلے میں رسول الله سے ایک حدیث مروی ہے کہ:
”شوم المرئة غلاء مھرھا“.
منحوس اور بدبخت ہے وہ عورت کہ جس کا حق مہر بھاری ہو (5) ۔
اسی ضمن میں ایک اور حدیث ہے:
”من شومھا شدّة موٴنتھا“.
اس کی نحوست کی ایک نشانی اس کی زندگی (یا شادی) کے اخراجات کا زیادہ ہونا ہے (6) ۔
بہت سے مرد اور عورتیں اس الٰہی اور انسانی ذمہ داری کو قبول کرنے کے لئے ایک عذر مالی وسائل نہ ہونے کا پیش کرتے ہیں اس سلسلے میں زیرِ بحث آیات میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ غربت وافلاس شادی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا بلکہ بہت سی خوشحالی کا باعث بن جاتی ہیں، غور کرنے سے اس کی وجہ بھی واضح ہوجاتی ہے کیونکہ جب تک آدمی اکیلا ہے اور مجرّد ہو اسے ذمہ داری کا احساس نہیں ہوتا اور وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور استعداد کو پوری طرح بروئے کار نہیں لاتا اور اگر کچھ کماتا ہے تو اسے سنبھال کر رکھنے کی کوشش نہیں کرتا، اس لئے غیر شادی شدہ افراد عموماً تہی دست ہوتے ہیں لیکن شادی کے بعد انسان کی شخصیت ایک اجتماعی شخصیت بدل جاتی ہے، شادی کے بعد مرد شدّت سے محسوس کرتا ہے کہ اس کی ذمہ داری ہے کہ بیوی کی حفاظت کرے اور اس کا نان ونفقہ پورا کرے، اس میں خاندان کی آبرو کا احساس ہوتا ہے اور وہ ہونے والی اولاد کے لئے وسائل زندگی مہیّا کرنے کی تگ ودَو کرتا ہے اس لئے پورے شعور سے اپنی صلاحیّت اور استعداد بروئے کار لاتا ہے اور اپنی آمدنی کی حفاظت اور اس میں قناعت کی کوشش کرتا ہے اور تھوڑے ہی عرصے میں وہ افلاس پر غلبہ حاصل کرلیتا ہے، بلاوجہ نہیں کہ ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”الرزق مع النساء والعیال“.
روزی بیوی اور بچوں کے ساتھ ساتھ ہے (7)۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ:
ایک شخص رسول الله کی خدمت میں آیا اس نے آپ سے اپنی تہی دستی کی شکایت کی، آپ نے فرمایا:
تزوج
شادی کرو
فنزوج فوسع لہ
اس نے شادی کی تو اس کے رزق میں فراخی آگئی(8) ۔
اس میں شک نہیں کہ تائید ایزدی اور مخفی روحانی قوتیں بھی ایسے افراد کی مدد کرتی ہیں کہ جو انسانی ذمہ داری پوری کرنے اور پاکدامنی کی حفاظت کے لئے شادی کرتے ہیں، ہر باایمان شخص اس خدائی وعدے پر بھروسہ کرسکتا ہے اس سے ولولہ حاصل کرسکتا ہے اور اس پر ایمان لاسکتا ہے ۔
ایک اور حدیث پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ سلّم سے ان الفاظ میں مروی ہے:
من ترک التزویج مخافة العیلة فقد ساء ظنہ بالله انّ الله عزوّجل یقول <إِنْ یَکُونُوا فُقَرَاءَ یُغْنِھِمْ اللهُ مِنْ فَضْلِہِ
جو شخص غربت کے خوف سے شادی نہ کرے اس نے الله کے بارے میں سوئے ظن کیا کیونکہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: ”اگر وہ غریب ہوئے تو الله انھیں اپنے فضل سے غنی کردے گا“(9)۔
اسلامی کتب میں اس سلسلے میں بہت زیادہ روایات ہیں اگر ہم ان سب کو نقل کرنے لگیں توبات تفسیری حدود سے بڑھ جائے گی۔
1۔ سفینة البحار، ج۱، ص۵۶۱ (مادہٴ زوج)
2۔ ایضاً
3 ۔ مجمع البیان، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔
4۔ مجمع البیان، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔
5۔ وسائل الشیعہ، ج۱۵، باب۵، از ابواب المھور، ص۱۰.
6 ۔ ایضاً.
7 ۔ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ۵۹۵.
8 ۔ وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۲۵ (باب ۱۱، از ابواب عقد بابِ نکاح)
9۔ وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۲۵ (باب ۱۱، از ابواب عقد بابِ نکاح)
۲۔ ”وَالصَّالِحِینَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ“ کی تفسیرآسان شادی بیاہ کی ترغیب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma