بے پردگی اور بے حیائی کے خلاف قیام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۱۔ پردے کا فلسفہشان نزول
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ سورت عفّت وپاکدامنی کا درس لئے ہوئے ہے، اس میں جنسی بے راہ روی کے خلاف اقدامات کئے گئے ہیں، اس لحاظ سے اس کے مباحث واضح طور پر ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔
زیرِ بحث آیات میں غیر محرم کی طرف نگاہ کرنے، ہوسناک نگاہوں سے دیکھنے اور پردے کے بارے میں احکام بیان کئے گئے ہیں، ان آیات کا خلافِ ناموس تہمتیں لگانے کی بحث سے ربط کسی سے مخفی نہیں ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: مومنین سے کہہ دو کخ (نامحرموں کی طرف سے اور ہر اس چیز سے کہ جن پر نظر ڈالنا حرام ہے) اپنی آنکھیں بند رکھیں اور اپنے دامن کی حفاظت کریں (قُلْ لِلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ اٴَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَھُمْ) ۔
”یَغُضُّوا“ ”غض“ (بروزن ”خز“) کے مادہ سے در اصل کم کرنے اور نقصان کے معنی میں ہے، بہت سے مواقع پر یہ لفظ آواز کم اور آہستہ کرنے اور نگاہی کم یا نیچی کرنے کے لئے بولا جاتا ہے، لہٰذا آیت یہ نہیں کہتی کہ موٴمنین اپنی آنکھیں بند کرلیں بلکہ کہتی ہے کہ وہ اپنی نگاہیں کم اور نیچی کرلیں، یہ لطیف تعبیر ہے، کسی وقت کسی مرد کا کسی نامحرم عورت سے سامنا ہو تو اگر وہ آنکھیں بند کرلے تو اس کے لئے چلنا اور دوسرے کام کرنا ممکن نہ ہرے، لیکن اگر نظریں اس عورت کے چہرے اور بدن سے ہٹالے اور نگاہیں نیچی کرلے تو گویا اس نے اپنی نگاہ میں کمی کردی ہے اور وہ منظر کہ جو اس کے لئے دیکھنا ممنوع ہے اسے اس نے اپنی نگاہوں کی پہنچ سے بالکل حذف کردیا ہے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن یہ نہیں کہتا کہ کس چیز سے آنکھیں بند کریں (اصلاح کی زبان میں فعل کے متعلق کو حذف کردیا گیا ہے) تاکہ یہ حکم عمومیت پیدا کرے یعنی ان تمام چیزوں کے دیکھنے سے آنکھیں بند کرلیں کہ جن کی طرف نگاہ کرنا حرام ہے ۔
لیکن سیاق وسباق بالخصوص اگلی آیت کی طرف دیکھنے سے معاملہ واضح ہوجاتا ہے کیونکہ اگلی آیت میں پردے کا مسئلہ بیان ہوا ہے، لہٰذا یہاں نامحرم عورتوں کی طرف نگاہ کرنا ہے،

مذکورہ بالا شان نزول بھی اسی مفہوم کی موٴید ہے(1) ۔
جو کچھ کہا جاچکا ہے اس سے یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ زیرِ بحث آیت کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ مرد عورتوں کے چہرے میں کھوکر نہ رہ جائیں کیونکہ اس سے تو یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ اس ارادے کے بغیر نگاہیں کرنا جائز ہے، درحقیقت اس سے مراد یہ ہے کہ عام طور پر دیکھتے ہوئے انسان کی نظر ایک وسیع حصّے پر پڑتی ہے اگر ایسے میں ان کی نگاہ کسی نامحرم عورت پر پڑے تو چاہیے کہ اس کی طرف نہ دیکھے اور اس کی طرف سے آنکھیں بند کرلے البتہ اپنے راستے اور اونچ پر نظر رکھے، یہ جو ”غض“ کا معنی کیا گیا ہے اس سے یہی مراد ہے (غور کیجئے گا) ۔
زیرِ بحث آیت میں دوسرا حکم حفظِ فروج کے بارے میں ہے ۔
جیسا کہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے ”فرج“ بنیادی طور پر شگاف اور دو چیزوں کے درمیانی فاصلے کو کہتے ہیں لیکن اس قسم کے مواقع پر کنایتاً شرمگاہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ہم نے اس کے کنائی معنی کے لئے لفظ ”دامان“ انتخاب کیا ہے ۔
جیسا کہ روایت آیا ہے حفظِ فرج سے مراد دوسروں کی نظروں سے چھپانا ہے، ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
کل آیة فی القرآن فیھا ذکر الفروج من الزنا الّا ھٰذہ الآیة فانّھا من النظر.
قرآن کی ہر آیت جس میں حفظ فرج کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے اس سے مراد زنا سے محفوظ رہنا ہے مگر اس آیت میں اس سے مراد دوسروں کی نگاہ سے محفوظ رکھنا ہے ۔
بعض اوقات یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے اس کام سے کیوں منع کیا ہے کہ جو خواہشاتِ دل کا تقاضا ہے، اس سلسلے میں آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: یہ ان کے لئے بہتر اور پاکیزہ ہے (ذٰلِکَ اٴَزْکَی لَھُمْ) ۔
اس کے بعد ان لوگوں کو خطرے سے آگاہ کیا ہے جو بیان کہ جو جان بوجھ کر نا محرموں پر ہوس آلود نگاہیں ڈالتے ہیں اور پھر اسے غیر اختیاری قرار دیتے ہیں، ارشاد ہوتا ہے: جو کچھ تم انجام دیتے ہو الله اس سے یقینی طور پر آگاہ ہے (إِنَّ اللهَ خَبِیرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ(
اگلی آیت میں اس سلسلے میں عورتوں کی ذمہ داری بیان کی گئی ہے، پہلے تو وہ ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں جو مردوں کی ذمہ داریوں جیسی ہیں، ارشاد ہوتا ہے: باایمان عورتوں سے کہہ دوکہ اپنی آنکھیں رکھیں (اور نامحرم مردوں کی طرف دیکھنے سے بچیں اور اپنے دامن کی حفاظت کریں (وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اٴَبْصَارِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَھُنَّ) ۔
گویا جیسے مردوں پر ہوس آلود نگاہوں سے عورتوں کی طرف دیکھنا حرام ہے اسی طرح عورتوں پر بھی حرام ہے، اسی طرح دوسروں سے اپنی شرمگاہ کو چھپانا جیسے مردوں کے لئے ضروری ہے اسی طرح عورتوں پر بھی واجب ہے ۔
اس کے بعد تین جملوں میں مسئلہ حجاب کا خصوصیت سے عورتوں سے متعلق ہے، ان تیں جملوں کو ہم ذیل میں دیکھتے ہیں:
۱۔ انھیں نہیں چاہیے کہ اپنا بناوٴ سنگھار دکھاتی پھریں سوائے اتنی مقدار کے کہ جتنی فطری طور پر ظاہر ہوجاتی ہے (وَلَایُبْدِینَ زِینَتَھُنَّ إِلاَّ مَا ظَھَرَ مِنْھَا) ۔
جس زینت کا چھپانا عورتوں کے لئے ضروری ہے اور جس کے اظہار کی اجازت دی گئی ہے اس کے مصداق کے بارے میں مفسرین میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے ۔
بعض نے زینتِ پنہاں کو عورت کی فطری زینت (اس کے خوبصورت بدن) کے معنی میں لیا ہے جبکہ لفظ ”زینت“ اس معنی میں بہت ہی کم بولا جاتا ہے ۔
بعض دوسروں نے اسے مقامِ زینت کے معنی میں لیا ہے کیونکہ خود زینت مثلاً گوشوارہ، دست بند اور بازو بند وغیرہ کو ظاہر کرنے میں کوئی ایسی بات نہیں کہ جس کی ممانعت کی جائے، ظاہر کرنے کی ممانعت تو مقامِ زینت کے ساتھ مربوط ہے یعنی کان، گردن، ہاتھ اور بازو ۔
کچھ مفسرین نے اپنے زینت کی چیزوں کے معنی میں لیا ہے البتہ جس وقت وہ بدن پر ہوں، واضح ہے کہ ایسی زینت آشکار ہوگی تو ساتھ بدن کا وہ حصّہ بھی ظاہر ہوگا کہ جس پر زینت موجود ہے ۔
آخری دو تفاسیر نتیجے کے اعتبار سے یکساں ہیں اگرچہ مسئلہ مختلف طریقے سے بیان کیا گیا ہے ۔
حق یہ ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم پہلے سے کئے گئے فیصلے کے بغیر اور اس کے ظاہری مفہوم کے مطابق اس کی تفسیر کریں اور ظاہری مفہوم کے اعتبار سے مذکورہ بالا تیسرا معنی ہی درست ہے ۔
لہٰذا عورتوں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ زینتیں اور بناوٴ سنگھار کہ جو عموماً چھپا ہوتا ہے اسے ظاہر کریں، اگرچہ بدن نہ بھی ظاہر ہو، اس لحاظ سے عام چار یا برقعے کے نیچے جو زینت آمیز لباس ہوتا ہے اسے ظاہر کرنا بھی جائز نہیں کیونکہ قرآن نے ایسی زینتوں کے اظہار سے منع کیا ہے ۔
آئمہ اہل بیت علیہم السلام جو متعدد روایات نقل ہوئی ہیں ان میں یہی معنی نظر آتا ہے، ان کے مطابق زینت باطن سے مراد گلوبند بازوبند اور پازیب ہے(2) ۔
متعدد روایات میں زینتِ ظاہر سے انگوٹھی اور سرمہ وغیرہ مراد لیا گیا ہے، ان روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ چھپی ہوئی زینتوں سے بھی زیورات اور بناوٴ سنگھار کی وہ چیزیں ہی مراد ہیں کہ جو ہموماً چھپی ہوئی ہیں (غور کیجئے گا) ۔
۱۔ اس آیت میں عورتوں کو دوسرا حکم دیا گیا ہے: اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے سینے پر ڈال لیں (وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلیٰ جُیُوبِھِنَّ) ۔
”خمر“ ”خمار“ (بروزن ”حجاب“) کی جمع ہے بنیادی طور پر یہ لفظ پردے اور چھپانے والی چیز کے معنی میں ہے لیکن عام طور پر اس چیز کو کہا جاتا ہے کہ جس سے عورتیں اپنا سرچھپاتی ہیں (دوپٹہ یا چادر وغیرہ) ۔
”جیوب“ ”جیب“ (بروزن ”غیب“) کی جمع ہے جس کا معنی ہے گریبان، بعض اوقات یہ لفظ سینے کے اوپر والے حصّے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔
اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے عورتیں اپنے دوپٹوں اور چادروں کے آنچل شانوں پر یا سر کے پچھلی طرف ڈالتی تھیں، اس طرح سے ان کی گردن اور سینے کا کچھ حصّہ دکھائی دیتا تھا، قرآن حکم دیتا ہے کہ عورتیں اپنی چادر اپنے گریباں کے اوپر ڈال لیں تاکہ گردن اور سینے کا دکھائی دینے والا حصّہ چھپ جائے (مذکورہ شانِ نزول سے بھی یہی معنی معلوم ہوتا ہے) ۔
۳۔ تیسرے حکم میں ان افراد کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جن کے سامنے عورتیں پردہ ہٹاسکتی ہیں اور چھپی ہوئی زینت کو ظاہر کرسکتی ہیں ۔
بات یوں شروع ہوتی ہے: عورتیں اپنی زینت اور سنگھار ظاہر نہ کریں (وَلَایُبْدِینَ زِینَتَھُنَّ) ۔ سوائے ان بارہ مواقع پر:
۱۔ اپنے شوہروں کے لئے (إِلاَّ لِبُعُولَتِھِنَّ) ۔
۲۔ اپنے آباوٴ اجداد کے سامنے (اٴَوْ آبَائِھِنَّ) ۔
۳۔ اپنے شوہروں کے آباء واجداد کے سامنے (اٴَوْ آبَاءِ بُعُولَتِھِنَّ) ۔
۴۔ اپنے بیٹوں کے سامنے (اٴَوْ اٴَبْنَائِھِنَّ) ۔
۵۔ اپنے شوہروں کے بیٹوں کے سامنے (اٴَوْ اٴَبْنَاءِ بُعُولَتِھِنَّ) ۔
۶۔ اپنے بھائیوں کے سامنے (اٴَوْ إِخْوَانِھِنَّ) ۔
۷۔ اپنے بھائیوں کے بیٹوں کے سامنے (اٴَوْ بَنِی إِخْوَانِھِنَّ) ۔
۸۔ اپنی بہنوں کے بیٹوں کے سامنے (اٴَوْ بَنِی اٴَخَوَاتِھِنَّ) ۔
۹۔ اپنی ہم مذہب عورتوں کے سامنے (اٴَوْ نِسَائِھِنَّ) ۔
۱۰۔ اپنی مملوک کنیزوں کے سامنے (اٴَوْ مَا مَلَکَتْ اٴَیْمَانُھُنَّ(
۱۱۔ ان زیر دست مردوں کے سامنے کہ جو کوئی رغبت نہ رکھتے ہوں (اٴَوْ التَّابِعِینَ غَیْرِ اٴُوْلِی الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ) ۔
۱۲۔ یا ان چھوٹے بچوں کے سامنے کہ جو ابھی عورتوں کے پوشیدہ امور کی تمیز نہیں رکھتے (اٴَوْ الطِّفْلِ الَّذِینَ لَمْ یَظْھَرُوا عَلیٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ) ۔
۴۔ آخر میں چوتھا حکم اس طرح بیان کیا گیا ہے: راہ چلتے اپنے پاوٴں پریوں مارکر نہ چلیں کہ ان کی چھپی ہوئی زینت ظاہر ہوجائے (وَلَایَضْرِبْنَ بِاٴَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِینَ مِنْ زِینَتِھِنَّ) ۔
وہ اپنی عفّت وپاکدامنی کا پاس کریں اور ایسے کام نہ کریں کہ جن سے مردوں کے جذبات کو انگیخت ملتی ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جادہٴ عفّت سے بھٹک جائیں، اس سلسلے میں اتنی احتیاط سے کام لیں کہ پازیب کی آواز بھی غیر مردوں کو سنائی نہ دے، یہ حکم اس امر کا مظہر ہے کہ اسلام اپنے احکام میں انتہائی باریک بینی سے کام لیتا ہے ۔
آخر میں تما م مومنین کو چاہے وہ مرد ہوں یا عورت خدا کی طرف لوٹ آنے کی اور توبہ کی دعوت دی گئی ہے، ارشاد ہوتا ہے: اے ایمان والوں! سب خدا کی طرف لوٹ آوٴ تاکہ فلاخ پاجاوٴ (وَتُوبُوا إِلَی اللهِ جَمِیعًا اٴَیُّھَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ) ۔
اگر اس سلسلے میں گزشتہ زندگی میں تم نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اس وقت جبکہ تمھارے سامنے اسلامی احکام واضح طور پر بیان کردیئے گئے اپنی خطاوٴں سے توبہ کروں اور نجات وفلاح کے لئے بارگاہِ الٰہی کا رخ کرو کیونکہ نجات وفلاح صرف اس کے بغیر ممکن نہیں، اپنے آپ کو اسی کے سپرد کردو ۔
یہ بجا ہے کہ ان احکام کے نزول سے پہلے ان کے بارے میں گناہ کا کوئی مفہوم نہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ جنسی امور سے متعلق بہت سارے مسائل عقلی پہلو رکھتے ہیں اصطلاح کی زبان میں ایسے عقلی ”مسلّمات عقلیہ“ کہتے ہیں اور یہ وہ مسلّمات ہیں کہ جن میں حکمِ عقل ہی ذمہ داری کے لئے کافی ہے ۔
1۔ ”یَغُضُّوا مِنْ اٴَبْصَارِھِمْ“ میں لفظ ”من“ سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں مفسرین نے مختلف احتمالات ذکر کئے ہیں، بعض نے اسے ”تبعیض“ کے لئے ، بعض نے ”زائدہ“ اور بعض نے ”ابتدائیہ“ سمجھا ہے، لیکن ظاہراً پہلا معنی ہی صحیح ہے ۔
2۔ نور الثقلین، ج۳، ص۵۸۷ و۵۸۸ بحوالہٴ اصول کافی اور تفسیر علی ابن ابراہیم ۔
۱۔ پردے کا فلسفہشان نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma