۱۔ گھر کی چار دیواری کا تحفظ اور آزادی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۲۔ غیر رہائشی گھروں سے کیا مراد ہے؟بغیر اجازت لوگوں کے گھروں میں نہ جاوٴ

اس میں شک نہیں کہ انسانی شخصیت کے دو پہلو میں، ایک انفرادی اور دوسرا اجتماعی، اسی وجہ سے انسان دو قسم کی زندگی کا حامل ہے، ایک خصوصی زندگی اور دوسری عمومی زندگی، ان میں سے ہر ایک کی اپنی کچھ خصوصیات ہیں اور ہر ایک کے لئے کچھ آداب وقوانین ہیں ۔
اجتماعی ماحول میں انسان مجبور ہے کہ اپنے اوپر کچھ پابندیاں عائد کرے اور اپنی آمد ورفت میں تحمل کرے، لیکن واضح ہے کہ شب وروز وہ اپنے تئیں ان پابندیوں میں جکڑے نہیں رکھ سکتا، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ شب وروز میں کچھ مدّت آزاد رہے، آرام کرے، اپنے گھر والوں اور اولاد سے نجی گفتگو کرے اور جتنا ممکن ہوسکے اس آزادی سے فائدہ اٹھائے، اسی لئے وہ ایک اپنا گھر چاہتا ہے اور اس میں پناہ لیتا ہے، کچھ دیر اپنے گھر کے لئے واضح ہے کہ انسان کے لئے کچھ تحفظ اور آزادی درکار ہے، اگر ہر شخص کو آزادی ہو تو وہ آئے گھر میں داخل ہوجائے تو پھر گھر میں ازادی اور آرام وسکون کا مفہوم ختم ہوجائے گا اور وہ کوچہ وبازار کے ماحول میں بدل جائے گا یہی وجہ کہ انسان کے درمیان اس سلسلے میں ہمیشہ کچھ خاص قوانین وآداب موجود رہے ہیں اور دنیا کے تمام قوانین لوگوں کے گھروں میں ان کی اجازت کے بغیر داخل ہونا ممنوع ہے اور اس کے لئے سزا تک مقرر ہے، یہاں تک کہ تحفظ، امن اور دوسرے حوالوں سے ضروری ہو کہ بلااجازت داخل ہوا جائے وہاں محدود ومعیّن طریقے ہیں اور ادارے ہیں کہ جو یہ اجازت دینے کا حق رکھتے ہیں ۔
اسلام میں بھی اس سلسلے میں تاکیدی حکم موجود ہے اور اس سلسلے میں جیسے، حکیمانہ آداب واسلام میں موجود ہیں ان کی نظیر بہت کم نظر آتی ہے ۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول الله کے صحابی ابوسعید نے آپ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت چاہی اور دروازے کے بالکل سامنے کھڑا ہوگیا، پیغمبر اکرم نے فرمایا: ”اجازت لیتے وقت دروازے کے سامنے کھڑا نہ ہوا کرو“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ خود آنحضرت جب کبھی کسی کے گھر کے دروازے پر آتے تو سامنے کھڑے نہ ہوتے تھے بلکہ دائیں یا بائیں ہوکر کھڑے ہوتے تھے اور ”السلام علیکم“ کہہ کر اجازت چاہتے تھے کیونکہ اس زمانے میں ابھی گھر کے دروازے پر پردہ لٹکانے کا معمول نہ تھا (1) ۔
روایات میں یہاں تک حکم دیا گیا ہے کہ جب کوئی ماں باپ کے گھر یا اپنے بیٹے کے گھر بھی جانا چاہے تو پہلے اجازت لے ۔
ایک شخص نے رسول الله سے پوچھا: یا رسول الله! جب میں اپنی ماں کے گھر جانے لگوں تو کیا وہاں بھی اجازت لوں؟
فرمایا: ہاں ۔
اس نے عرض کیا: میرے علاوہ میری ماں کا کوئی خدمت گزار بھی نہیں ہے تو پھر بھی اجازت لوں؟
فرمایا:
اٴ تحب اٴن تراھا عریاناً.
کیا تو پسند کرتا ہے کہ تو اپنی ماں کو برہنہ دیکھے ۔
اس نے عرض کیا: نہیں ۔
تو پھر فرمایا:
فاٴستاذن علیھا
جب ایسا ہے تو پھر اس سے اجازت لیا کر (2) ۔
ایک اور روایت میں ہے:
ایک مرتبہ پیغمبر اکرم اپنی دختر نیک اختر حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیہا کے گھر گئے، پہلے دروازے پر آکر دروازے پر ہاتھ رکھ کر اسے تھوڑاسا پیچھے ہٹایا، پھر فرمایا: السلام علیکم ۔
جناب فاطمہ علیہ السلام نے اپنے والد گرامی کو سلام کا جواب دیا۔
پھر آپ نے فرمایا: کیا اجازت ہے کہ اندر آجاوٴں؟
عرض کیا : تشریف لائیے یا رسول الله
رسول الله نے فرمایا: جو میرے ساتھ ہے کیا اسے بھی اجازت ہے کہ اندر آجائے ۔
فاطمہ علیہ السلام نے عرض کیا: میرے سر پر چادر نہیں ہے ۔
پھر گئیں اور چادر لی اور جب باپردہ ہوگئی تو رسول اللهنے پھر سلام کیا۔
فاطمہ علیہ السلام نے جوابِ سلام دیا۔
رسول الله پھر اپنے لئے داخل ہونے کی اجازت چاہی جب انھوں نے اجازت دی ہو پھر آپ نے اپنے ساتھ جابر بن عبدالله کے لئے اجازت لی(3) ۔
اس حدیث سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرم کہ جو تمام مسلمانوں کے لئے ایک نمونہ اور ماڈل ہیں ان نکات کا کس قدر باریک بینی سے خیال رکھتے تھے ۔
بعض روایات میں یہاں تک ہے کہ تین مرتبہ اجازت لینی چاہیے ۔
پہلی مرتبہ اس طرح سے کہ گھروالے سن لیں ۔
دوسری مرتبہ وہ اپنے آپ کو آمادہ کرلیں ۔
پھر تیسری مرتبہ اجازت طلب کی جائے ، گھر والے چاہیں تو اجازت دیں اور چاہیں تو نہ دیں (4) ۔
بعض نے تو یہ بھی ضروری قرار دیا ہے کہ ان تین اجازتوں کے درمیان کچھ وقت کا فاصلہ ہونا چاہیے کیونکہ بعض اوقات صاحبِ خانہ کے بدن پر مناسب لباس نہیں ہوتا اور کبھی وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ اس حالت میں کوئی اسے دیکھے کبھی کمرے کی حالت درہم برہم ہوتی ہے اور کبھی کوئی راز کا ایسا معاملہ ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ گھر سے باہر کسی کو پتہ چلے لہٰذا اسے وقت دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے آپ کو آمادہ کرلے اور اگر وہ اجازت نہ دے تو بغیر تھوڑے سے بھی ملال کے واپس چلے جانا چاہیے ۔
1۔ تفسیر فخر رازی، ج۲۳، ص۱۹۸، زیر بحث کے ذیل میں ۔
2 ۔ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۵۸۶.
3 ۔ نور الثقلین، ج۳، ص۵۸۷.
4 ۔ وسائل الشیعہ، ج۱۴، ابواب مقدمات النکاح، باب۱۲۳.
۲۔ غیر رہائشی گھروں سے کیا مراد ہے؟بغیر اجازت لوگوں کے گھروں میں نہ جاوٴ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma