۱۔ ”فحشاء“ کی اشاعت سے کیا مراد ہے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۲۔ غلط پرو پیگنڈا، ایک بلابرائیوں کی اشاعت ممنوع ہے

انسان کے معاشرتی وجود ہے ۔ یہ معاشرہ انسان کے لئے ایک طرح سے اس کے گھر کی مانند ہے ۔ اس کی حرمت اور احترام اس کے اپنے گھر کی حرمت اور احترام کی طرح ہے ۔ معاشرے کی پاکیزگی اس کی اپنی پاکیزگی کے لئے مددگار ہے اور معاشرے کی آلودگی اس کی اپنی آلودگی کی طرح ہے ۔ اس اصول کی وجہ سے اسلام نے ہر اس کام کی شدید مخالفت کی ہے کہ جو معاشرے کو غلیظ یا زہرآلود کرنے کا سبب بنے ۔ یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے غیبت کی شدید مخالفت کی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ غیبت چھپے ہوئے عیوب کو آشکار کرتی ہے اور اس سے معاشرے کا احترام مجروح ہوتا ہے ۔ عیب پوشی کے حکم کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ گناہ معاشرے میں نہ پھیل جائے ۔ اسلام کے احکام کی نظر میں کھلے بندوں گناہ کی اہمیت مخفی گناہ سے زیادہ ہے ۔ یہاں تک کہ ایک روایت میں امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام نے فرمایا:
”المذیع بالسیئة مخذول والمستتر بالسیئة مغفور لہ“.
”جو شخص گناہ کی تشہیر کرے وہ مردود ہے اور جو گناہ کو مخفی رکھے اس کے لئے الله کی مغفرت ہے (۱) ۔
یہ جو ہ دیکھتے ہیں کہ زیرِ بحث آیات میں برائیوں کو پھیلانے کی سخت مذمت کی گئی ہے اور اس عمل پر شدید ڈانٹ ڈپٹ کی گئی ہے تو اس کی بھی یہی وجہ ہے ۔
اصولی طور پر گناہ آگ کی مانند ہے ۔ اگر معاشرے میں کسی جگہ یہ بھڑک اٹھے تو اسے بجھانے کی کوشش کرنا چاہیے یا کم از کم یہ کوشش ہونی چاہیے کہ یہ پھیلنے نہ پائے ورنہ یہ ہرجگہ کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور پھر اس پر کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ اگر لوگوں کی نظر میں گناہ ایک بڑی چیز نہ ہو تو یہ امر بذات خود گناہوں کے راستے میں ایک بڑی دیوار کی مانند ہے لیکن گناہوں اور برائیوں کی نشر واشاعت اس دیوار کو گرادیتی ہے اور لوگ گناہوں کو معمولی سمجھنے لگتے ہیں ۔
ایک حدیث میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں:
”من اذاع فاحشة کان کمبتدئھا“
”بُرے کام کی تشہیر کرنے والا اس کی ابتداء کرنے والے کے برابر ہے (۲) ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ: ایک شخص امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی خدمت میں آیا، اس نے عرض کیا: میں آپعلیہ السلام پر قربان، لوگ میرے ایک دینی بھائی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اس نے ایک ایسا کام انجام دیا ہے کہ جسے میں ناپسند کرتا ہوں ۔ میں نے خود اس سے پوچھا تو اس نے انکار کیا جبکہ متعدد افراد نے اس کے بارے میں یہ بات بتائی ہے ۔ میرے لئے کیا حکم ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا:
کذب سمعک وبصرک عن اخیک واٴن تشھد عندک خمسون قسامہ وقال لک قول فصدقہ وکذبھم، ولاتذیعن علیہ شیئاً تشینہ بہ وتھدم بہ مروتہ، فتکون من الذین قال الله عزوّجل: <إِنَّ الَّذِینَ یُحِبُّونَ اٴَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِینَ آمَنُوا لَھُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ.
اپنے مومن اور مسلمان بھائی کے مقابلے میں اپنے کان اور آنکھ کو جھٹلادو ۔ یہاں تک کہ اگر پچاس آدمی بھی آکر قسم کھاکر کہیں اس نے فلاں کام کیا ہے جبکہ وہ کہے کہ میں نے نہیں کیا تو اس بھائی کی تصدیق کرو اور ان کی بات ہرگز قبول نہ کرو ۔ جو چیز ننگ ورسوائی کا باعث ہو اور اس کی شخصیت کو ختم کردے اسے معاشرے میں نہ پھیلاوٴ ورنہ تم ان لوگوں میں سے شمار ہوگے کہ جن کے بارے میں الله فرماتا ہے:”جو لوگ مومنین کی برائیاں معاشرے میں پھیلانا پسند کرتے ہیں ان کے لئے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ برائیوں کے پھیلاوٴ کی مختلف صورتیں ہیں:
۱۔ کبھی جھوٹ اور بہتان کو ہوا دی جاتی ہے اور ہر کسی کو بتایا جاتا ہے ۔
۲۔ کبھی ایسے مراکز کی بنیاد رکھی ہے کہ جو برائیاں پھیلنے کا سبب بنتے ہیں ۔
۳۔ کبھی گناہ کے اسباب فراہم کرکے یا لوگوں کو ترغیب دے کر گناہ پھیلا یا جاتا ہے ۔
۴۔ کبھی بے شرمی اور بے حیائی عام کرکے اور برسرِ عام ارتکاب گناہ کرکے برائی پھیلائی جاتی ہے ۔
یہ سب برائیاں پھیلانے کے طریقے ہیں اور اشاعتِ فحشاء کے مصداق ہیں کیونکہ اس لفظ کا ایک وسیع مفہوم ہے ۔ (غور کیجئے گا) ۔
1۔ اصول کافی، ج۲، باب ستر الذنوب.
2۔ اصول کافی، ج۲، باب التعبیر.
۲۔ غلط پرو پیگنڈا، ایک بلابرائیوں کی اشاعت ممنوع ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma