برائیوں کی اشاعت ممنوع ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۱۔ ”فحشاء“ کی اشاعت سے کیا مراد ہے؟سوره نور / آیه 17 - 20
زیرِ نظر آیات میں پھر واقعہٴ افک کے حوالے سے بات کی گئی ہے ۔ ان میں غلط پراپیگنڈا کرنے اور نیک افراد پر خلافِ ناموس تہمت لگانے کے بُرے اور سنگین انجام کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ یہ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ قرآن متعدد بار ضروری سمجھتا ہے کہ مختلف موٴثر طریقوں سے اس مسئلے کا جائزہ لے اور اس کے بارے میں ایسی سخت باز پرس کرے اور محکم طریقے سے بات کرتا ہے کہ اگر (خدا اور روزِ جزاء پر ایمان) رکھتے ہو تو ایسے کام کی ہرگز تکرار نہ کرنا (یَعِظُکُمْ اللهُ اٴَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِہِ اٴَبَدًا إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ) ۔
یعنی ایمان کی نشانی یہ ہے کہ انسان بڑے گناہوں کا ارتکاب نہ کرے اور اگر کوئی بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ بے ایمانی کی نشانی ہے یا پھر کمزور ایمان کی۔ یہ جملہ درحقیقت توبہ کے ایک پہلو اور حصّے کی نشاندہی کررہا ہے کیونکہ گزشتہ گناہ پر پشیمانی ہی کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ آئندہ گناہ کا تکرار نہ کرنے کا پختہ عزم کیا جائے تاکہ توبہ ہمہ گیر ہوجائے ۔
اس کے بعد مزید تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے: یہ باتیں معمولی نہیں ہیں بلکہ تمھاری سرنوشت کے لئے حقائق ہیں کہ جو بڑی وضاحت وصراحت کے ساتھ تم سے بیان کئے گئے ہیں اور یہ خدائے علیم وحکیم کی طرف سے ہیں (وَیُبَیِّنُ اللهُ لَکُمْ الْآیَاتِ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ) ۔ وہ اپنے علم وآگاہی کی بناء پر تمھارے اعمال کی تمام تفصیلات سے باخبر ہے یا دوسرے لفظوں میں اپنے علم کے مطابق وہ تمھاری احتیاجات اور تمھارے خیر وشر کے عوامل سے آگاہ ہے اور اپنی حکمت کے مطابق اپنے احکام کو ان سے ہم آہنگ کرتا ہے ۔
اس کے بعد بات کا رخ کچھ تبدیل کیا گیا ہے ۔ اب ایک شخصی واقعے سے آگے بڑھ کر ایک عمومی اور جامع قانون کی صورت میں بات کی گئی ہے تاکہ مسئلے پر کچھ اور زور دیا جائے ۔ ارشاد ہوتا ہے: جو لوگ اہلِ ایمان میں برائیاں شائع کرنا پسند کرتے ہیں ان کے لئے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے (إِنَّ الَّذِینَ یُحِبُّونَ اٴَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِینَ آمَنُوا لَھُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ) ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ یہ تاکید اس بناء پر ہے کہ تہمت زوجہٴ رسول یا اس پائے کی کسی شخصیت پر لگائی گئی تھی بلکہ کسی بھی با ایمان شخص کے بارے میں ایسا معاملہ درپیش ہو یہ تاکید اس کے بارے میں صادق آئے گی کیونکہ یہ مسئلہ شخصی یا انفرادی پہلو نہیں رکھتا اگرچہ ممکن ہے کہ کسی موقع کی مناسبت سے اس میں دوسرے پہلووٴں کا بھی اضافہ ہوجائے ۔
اس جملے کا درحقیقت ایک لفظ مقدر ہے اور وہ ہے ”لا“ جملہ یوں ہوگا:
یعظکم الله اٴن لاتعودوا لمثلہ ابداً.
اور اگر یہ لفظ مقدر نہ مانیں تو پھر ”یعظکم“ کا لفظ ”ینھاکم“ کے معنی میں ہونا چاہیے خدا تمھیں ایسے کام کے تکرار سے منع کرتا ہے ۔
ضمناً توجہ رہے کہ فحشاء اور برائیوں کی اشاعت فقط یہی نہیں کہ باایمان مرد یا عورت پر تہمت لگائی گئی جھوٹی تہمت کی تشہیر کی جائے اور ان پر بدکاری کا الزام لگایا جائے تو اس کا ایک مصداق ہے بلکہ یہ تعبیر تو بہت وسیع مفہوم رکھتی ہے اور اس میں ہر قسم کی برائیوں اور گناہوں کی ترویج واشاعت اور اس میں مدد دینا شامل ہے ۔ البتہ قرآن مجید میں عموماً لفظ ”فحشاء“ یا ”فاحشة“ جنسی انحرافات اور بدکاریوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے لیکن جیسا کہ مفردات میں راغب نے کہا ہے لغوی مفہوم کے اعتبار سے ”فحش“ ”فحشاء“ اور ”فاحشة“ ہر ایسے کام کو کہتے ہیں کہ جس میں بہت زیادہ برائی اور قباحت پائی جائے ۔ کبھی کبھار قرآن مجید میں بھی یہ لفظ وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے مثلاً:
<وَالَّذِینَ یَجْتَنِبُونَ کَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ
”جو لوگ گناہان کبیرہ اور قبیح اعمال سے بچتے ہیں“۔(شوریٰ/۳۷(
اس سے زیرِ بحث آیت کے مفہوم کی وسعت پوری طرح واضح ہوجاتی ہے ۔
اب رہا مسئلہ یہ جو قرآن نے کہا ہے کہ دنیا میں بھی ان کے لئے المناک عذاب ہے تو اس سے کیا مراد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے اس سے شرعی حدود وتعزیرات، معاشرتی ردّعمل اور انفرادی سطح پر بُرے نتائج مراد ہوں اور یہ ان اعمال کے وہ نتائج ہیں کہ جو ارتکاب کرنے والوں کو دنیا میں ہی بھگتنا پڑتے ہیں ۔ علاوہ ازیں ایسے لوگ حق شہادت سے محروم ہوجاتے ہیں اور رسوائی الگ ہوتی ہے ۔
رہا آخرت کا دردناک عذاب تو رحمتِ خدا سے دوری، غضب الٰہی اور آتش جہنم ہے ۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: اور خدا جانتا ہے جبکہ تم نہیں جانتے (وَاللهُ یَعْلَمُ وَاٴَنْتُمْ لَاتَعْلَمُونَ) ۔
الله تعالیٰ، برائیوں کی اشاعت کے منحوس نتائج اور دنیا وآخرت میں اس کے ہولناک انجام سے اچھی طرح آگاہ ہے ۔ لیکن تم اس مسئلے کے مختلف پہلووٴں سے باخبر نہیں ہو ۔
وہ جانتا ہے کہ اس گناہ کی چاہت کن لوگوں کے دل میں ہے، جو لوگ پُر فریب ناموں کے پسِ پردہ یہ بُرے عمل انجام دیتے ہیں وہ انھیں پہچانتا ہے لیکن تم نہ جانتے ہو اور نہ پہچانتے ہو اور وہ جانتا ہے کہ ان بُرے اور قبیح کاموں کو روکنے کے لئے کس طرح کے احکام نازل کرے ۔ واقعہ افک، اشاعتِ فحشاء سے ممانعت اور پاکدامن اہلِ ایمان پر تہمت بازی سے روکنے کے سلسلے کی آخری آیت میں ایک بار پھر تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے: اگر فضل ورحمتِ الٰہی تمھارے شامل حال نہ ہوتی اور الله تم پر رحیم ومہربان نہ ہوتا تو تمھیں اسی دنیا میں ایسی دردناک سزا دیتا کہ جس سے تمھاری زندگی تاریک اور برباد ہوکر رہ جاتی (وَلَوْلَافَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ وَاٴَنَّ اللهَ رَئُوفٌ رَحِیمٌ) (۱) ۔
1۔ اس جملے کی نظیر گزشتہ آیات میں بھی ہے، اس میں ایک محذوف ہے، اس کی تقدیر یوں ہے:
”لولا فضل الله علیکم..... لمسکم فیما اٴفضتم فیہ عذاب عظیم.
اگر فضل ورحمتِ الٰہی تمھارے شامل حال نہ ہوتی تو جس راہ میں تم چل نکلے ہو اس پر تمھیں عذاب عظیم آپکڑتا۔ 
۱۔ ”فحشاء“ کی اشاعت سے کیا مراد ہے؟سوره نور / آیه 17 - 20
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma