اس دنیا کی عمر تھوڑی ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره مؤمنون / آیه 117 - 118سوره مؤمنون / آیه 112 - 116

گذشتہ آیات میں اہل جہنم کی سزا کا ذکر ہے، یہ نفسیاتی سزا، خدا کی طرف سے سرزنش کی صورت میں ہے، فرمایا گیا ہے: اس روز الله انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہے گا کہ تم زمین پر کتنے سال رہے ہو (قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاٴَرْضِ عَدَدَ سِنِینَ) ۔
اس آیت میں لفظ ”الارض“ کی موجودگی اور دیگر قرائن ظاہر کرتے ہیں کہ ایّامِ آخرت کا موازنہ کرتے ہوئے دنیا میں ان کی عمر کے بارے میں سوال کیا گیا ہے ۔
بعض مفسرین نے یہاں عالمِ بر زخ میں ان کی مدّت ِ قیام کے بارے میں سوال مراد لیا ہے، یہ بہت بعید معلوم ہوتا ہے اگرچہ بعض دوسری آیات میں اس سلسلے میں کچھ شواہد ملتے ہیں(۱) ۔
آیت نشاندہی کرتی ہے کہ اس میں بر زخ میں ٹھہرنے کے بارے میں سوال وجواب ہورہا ہے اور اگر اسے زیرِ بحث آیات کے لئے قرینہ قرار دیں تو یہاں مفہوم بھی برزخ میں ٹھہرنا ہوگا، لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں، زیرِ بحث آیات میں ایسے زیادہ قوی قرائن موجود ہیں کہ جو نشاندہی کرتے ہیں کہ یہاں سوال وجواب دنیا میں ٹھہرنے سے مربوط ہے ۔
لیکن اس موازنے میں انھیں دنیاوی زندگی اس قد رکم دکھائی دے گی کہ وہ جواب میں کہیں گے: ”ہم تو صرف ایک دن یا دن کا ایک حصّہ ہی دنیا میں ٹھہرے ہیں“ (قَالُوا لَبِثْنَا یَوْمًا اٴَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَاسْاٴَلْ الْعَادِّینَ) ۔
اب سوال رہ گیا کہ ”عرش“ کی صفت ”کریم“ کیوں ذکر ہوئی ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دراصل ”کریم“ کا معنی ہے شریف، فائدہ مند، عمدہ اور اچھا اور عرش الٰہی چونکہ ان صفات کا حامل ہے، اس لئے اسے ”کریم“ کہا گیا ہے ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ لفظ ”کریم“ ہمیشہ کسی عاقل وجود مثلاً وجود خدا اور انسانوں کے لئے ہی استعمال نہیں بلکہ عربی زبان میں اس کے علاوہ اس کے علاوہ بھی بولاجاتا ہے، چنانچہ سورہٴ حج کی آیت۵۰ میں صالح مومنین کے بارے میں بولا جاتا ہے:
<لھم مغفرة ورزق کریم
”ان کے مغفرت اور رزقِ کریم (پربرکت روزی) ہے ۔
جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے: یہ صفت ، کم اہم نیکیوں اور خوبیوں کے لئے استعمال نہیں ہوتی، بلکہ نہایت اہم مواقع کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔
موت زندگی کا خاتمہ نہیں
ہم کہہ چکے ہیں کہ قیامت کی بحث میں ایک دوسرے عالم کے وجود کے لئے ایک دلیل خود اسی عالم کے نظام کا مطالعہ ہے، بالفاظ دیگر یہ ”نشاٴة اولیٰ“ گواہی دیتی ہے کہ اس کے بعد ”نشاٴة اخریٰ“ بھی ہے ۔
ہم یہاں اس سلسلے میں کچھ مزید وضاحت ضروری سمجھتے ہیں ۔
ہم دیکھتے ہیں ، جہان خلقت بہت عظیم بھی ہے اور منظّم بھی، ہر لحاظ سے یہ عالم پرشکوہ اور تعجب انگیز ہے، اس کائنات کے اسرار اس قدر ہیں کہ عظیم سائنسدان اور دانشور معترف ہیں کہ انسان کی تمام معلومات ایک ضخیم کتاب کے مقابلے میں ایک چھوٹے سے صفحے کی مانند ہیں، بلکہ اس کائنات کے بارے میں جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ درحقیقت اس کتاب کی الف ب ہے ۔
اس عالم کی ہر ایک عظیم گلیکسی کئی ارب ستاروں پر مشتمل ہے اور ان کہکشاوٴں کی تعداد ایک دوسرے سے فاصلہ اس قدر زیادہ ہے کہ روشنی کی بنیاد پر بھی اس کا حساب بہت مشکل ہے، جبکہ روشنی کی رفتار میں تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہے ۔
اس جہان کی ایک چھوٹی سے چھوٹی اکائی کی ساخت میں جو نظم اور شعور استعمال ہوا ہے، وہی ہے کہ اس جہان کی کسی عظیم اکائی میں نظر آتا ہے، انسان کو ہم اس کائنات کے کامل ترین موجود کے طور پر پہنچانتے ہیں، جہاں تک ہمیں معلوم ہے، انسان اس شاہکار کا شکار ہے ۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں، جسے عالم ہستی کا شاہکار سمجھا گیا ہے، یعنی انسان اپنی اس مختصر عمر میں کسی قسم کی پریشانیوں اور مشکلات میں پڑا ہوتا ہے، ابھی بچپن گزر نہیں پاتا کہ جوانی اور ہیجان انگیز دور آپہنچا ہے اور ابھی جوانی کی بہار قدم جما نہیں پاتی کہ بڑھاپے کا قابلِ رحم دورآپہنچا ہے ۔
کیا یہ بات قابلِ یقین ہے کہ اتنی بڑی کائنات اور اس کا شاہکار یہ انسان، بس اسی دور کے لئے ہو، بس یہی مقصد ہو کہ یہ انسان اس عالم میں رنج وتکلیف کے یہ تین دور گزارے، کھائے، پیئے، لباس پہنے، سوئے جاگے اور پھر ختم ہوجائے اور سب کچھ اپنے انجام کو پہنچ جائے؟
اگر سچ مچ ایسا ہی ہو تو کیا یہ خلقت مہمل اور فضول نہیں ہے، کیا کوئی عاقل اس سارے نظام اور اتنی عظیم کائنات کو اس معمولی سے ہدف کے لئے قائم کرسکتا ہے ۔
فرض کریں کئی ملین سال انسان اس دنیا میں باقی رہے اور کئی نسلیں یکے بعد دیگرے آئیں اور جائیں، سائنسی علوم اس قدر ترقی کریں کہ انسان کو بہترین غذا، لباس، مکان اور دیگر نہایت اعلیٰ سہولیات حاصل ہوجائیں لیکن کیا یہ کھانا، پینا، پہننا، سونا اور جاگنا اتنی قدر وقیمت رکھتا ہے کہ اس کے لئے ایسی کائنات پیدا کی جائے؟
لہٰذا اگر اس عظیم کائنات ہی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے، یہ دنیا ایک زیادہ وسیع دنیا کے لئے ایک تمہید ہے، ایسی وسیع دنیا کہ جو جاودانی ودائمی ہے، ایسے عالم کا وجود ہی ہماری زندگی کو کوئی مفہوم عطا کرکتا ہے اور اسے فضول ہونے س بچا سکتا ہے ۔
لہٰذا کوئی عجیب بات نہیں اگر مادہ پرست فلسفی کہ جو قیامت اور دوسرے جہان پر اعتقاد نہیں رکھتے اس عالم کو بے مقصد سمجھیں اور واقعاً اگر ہم بھی ایسے عالم پر ایمان نہ رکھتے ہوتے تو ان کے ہم آواز ہوتے، ہم کہتے ہیں کہ اگر موت ہی انسان کا انجام اور خاتمہ ہوتا تو خلقتِ عالم بے مقصد ہوتی، اسی لئے سورہٴ واقعہ کی آیت ۶۲ میں ہے:
<وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ النَّشْاٴَةَ الْاٴُولَی فَلَوْلَاتَذکَّرُونَ
”تم نے اس نشاٴة اولیٰ اور عالم کے اس دور اوّل کو دیکھا تو کیوں متوجہ نہیں ہوتے ہو اور اس کے بعد کے عالم پر ایمان نہیں لاتے ہو ۔


<وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَیْرَ سَاعَةٍ کَذٰلِکَ کَانُوا یُؤْفَکُون، وَقَالَ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِیمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِی کِتَابِ اللهِ إِلَی یَوْمِ الْبَعْثِ فَھٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلَکِنَّکُمْ کُنتُمْ لَاتَعْلَمُونَ
”جب قیامت بر پا ہوگی تو مجرم قسم کھاکر کہیں گے کہ ہم ایک ساعت سے زیادہ نہیں ٹھہرے، جی ہاں! وہ اس طرح دنیا بھی جھوٹ بولا کرتے تھے، لیکن جو اصلِ علم وایمان ہیں وہ اُن سے کہیں گے: تمھارے وہاں ٹھہرنے کی مدّت کتابِ الٰہی میں ثبت ہے اور تم روز قیامت تک وہاں ٹھہرے ہو اور اب قیامت ان پہنچی ہے اور قبروں سے اٹھنے کا دن ہے، مگر تم جانتے نہ تھے“۔
1۔ سورہٴ روم کی آیت ۵۵ اور ۵۶ میں ہے
سوره مؤمنون / آیه 117 - 118سوره مؤمنون / آیه 112 - 116
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma