بدکرداروں کی سزا کا ایک گوشہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۱۔ جس روز سب رشتہ داریاں ختم ہوجائیں گےسوره مؤمنون / آیه 101 - 104

گذشتہ آیات میں عالمِ بر زخ کے بارے میں گفتگو تھی اب زیرِ بحث آیات میں قیامت اور جہان میں مجرموں کی حالت کے بارے میں بات کی گئی ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے: جب صور پھونکا جائے گا تو ان کے درمیان کسی قسم کا کوئی نسب باقی نہیں رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے سے سوال کریں گے ۔ (فَإِذَا نُفِخَ فِی الصُّورِ فَلَااٴَنسَابَ بَیْنَھُمْ یَوْمَئِذٍ وَلَایَتَسَائَلُونَ) ۔
ہم جانتے ہیں کہ آیاتِ قرآنی کے مطابق دو مرتبہ صور پھونکا جائے گا، ایک مرتبہ اس عالم کے ختم ہونے کے وقت ، اس وقت آسمانوں اور زمین کے سب رہنے والے مرجائیں گے اور موت پُورے عالم پر چھا جائے گی، جب دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو مردے قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور انسان نئی زندگی پائیں گے، پھر ان کے حساب وکتاب اور جزا وسزا کا دور شروع ہوگا ۔
”نُفِخَ فِی الصُّور“ کے معنی میں ”بگل بجانا“ لیکن اس کی ایک خاص تفسیر اور مفہوم ہے کہ جو ہم انشاء الله سورہٴ زمر کی آیت ۶۸ کے ذیل میں بیان کریں گے ۔
بہرحال زیرِ بحث آیت قیامت کی دو چیزوں کی طرف اشارہ کرتی ہے، پہلی یہ ہے کہ اُس دن تمام نسب بیکار ہوجائیں گے کیونکہ اس جہان میں موجود رشتہ داری کے نظام کے باعث بہت سے مجرم سزاوٴں سے بچ جاتے ہیں، اسی طرح لوگ اپنی مشکلات کے حل کے لئے رشتہ داروں سے مدد لیتے ہیں، لیکن روزِ قیامت انسان ہوگا اور اس کے اعمال، یہاں تک کہ سگا بھائی بیٹا اور باپ بھی اس کے کام نہ آسکے گا اور اس کی سزا کوئی اپنے ذمہ نہ لے سکے ۔
دوسری یہ کہ وحشت کا یہ عالم ہوگا کہ حساب اور عذابِ الٰہی کے خوف کی شدّت سے لوگ ایک دوسرے سے کسی قسم کا کوئی سوال نہیں کریں گے ۔
اس روز ماں اپنے شیرخوار بچّے کو بھول جائے گی، بھائی بھائی کو فراموش کردے گا، سب مست دکھائیں دیں گے لیکن مست نہیں ہوںگے، عذابِ خدا بہت شدید ہے ۔
جیسا کہ ہم نے سورہٴ حج کی ابتداء میں پڑھا ہے:
<یَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَلُ کُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا اٴَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَھَا وَتَرَی النَّاسَ سُکَاریٰ وَمَا ھُمْ بِسُکَاریٰ وَلَکِنَّ عَذَابَ اللهِ شَدِیدٌ
” اس روز تم دیکھو کے کہدودھ پلانے والی ہر عورت (وحشت کے مارے) اپنے شیر خوار کو بھول جائے گی (خوف کے مارے) حاملہ عورتوں کاے حمل ساقط ہوجائے گیں اور (گھبراہٹ میں) لوگ مستی میں دکھائی دیں گے حالانکہ وہ مستی میں نہ ہوں گے بلکہ الله ما عذاب ہی شدید ہے (کہ جس کے باعث لوگ بدحواس ہورہے ہوں گے) ۔
اور تجھے یوں لگے گا گویا لوگ مدہوش ہوگئے ہیں، حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے، بلکہ الله کے عذاب کی شدت ہی کچھ ایسی ہوگی ۔
”وَلَایَتَسَائَلُونَ“ کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے مدد کا تقاضا کریں گے کیونکہ انھیں معلوم ہوگا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ نفی سوال سے مراد یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں پوچھیں گے بھی نہیں اور یہ ”فَلَااٴَنسَابَ بَیْنَھُمْ یَوْمَئِذٍ“ کی تاکید ہے ۔
البتہ پہلی تفسیر زیادہ واضح معلوم ہوتی ہے، اگرچہ یہ تفاسیر ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں اور ممکن ہے اس جملے میں یہ تمام مفاہیم جمع ہوں ۔
یہاں مفسرین کا ایک مشہور سوال بھی سامنے آتا ہے کہ متعدد قرآنی آیات سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہوتی ہے کہ روزِ قیامت لوگ ایک دوسرے سے سوال کریں گے جیسا کہ سورہٴ صافات کی آیت ۲۷ میں ہے کہ جب مجرمین دوزخ کی چوکھٹ پر ہوں گے تو <وَاٴَقْبَلَ بَعْضُھُمْ عَلیٰ بَعْضٍ یَتَسَائَلُونَ ”ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے (سرزنش آمیز) سوالات کریں گے “۔
نیز اسی سورت کی آیت ۵۰ اہلِ بہشت کے متعلق کہتی ہے کہ وہ بہشت میں ٹھہرتے وقت اپنے اُن دنیا کے دوستوں کے بارے میں ایک دوسرے سے سوال کریں گے کہ جو جادہٴ حق سے انحراف کے باعث دوزخ میں چلے گئے ہوں گے ۔ ارشاد ہوتا ہے:
<فَاٴَقْبَلَ بَعْضُھُمْ عَلیٰ بَعْضٍ یَتَسَائَلُونَ
اس کی نظیر سورہٴ فاطر کی آیت ۲۵ میں بھی ہے، تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے سوال نہیں کریں گے جبکہ مذکورہ بالا آیات سوال کرنے کا ذکر کررہی ہیں لہٰذا یہ آیتیں آپس میں کیسے ہماہنگ ہوسکتی ہیں ۔
جواب یہ ہے کہ اگر ہم ان آیات کے معانی ومفاہیم پر کچھ غور وخوض کریں تو مسئلہ واضح ہے ہوجاتا ہے کیونکہ ایک دوسرے سوال کرنے کا ذکر جن آیات میں آیا ہے، ان میں جنت میں جاپہنچنے یا جہنم کی دہلیز پر پہنچ جانے کے موقع کی بات کی گئی ہے جبکہ سوال کی نفی قیامت کے ابتدائی مراحل سے مربوط ہے کہ جب وحشت واضطراب کا یہ عالم ہوگا کہ ہر کسی کو اپنی پڑی ہوگی اور دوسرے کی کوئی خبر نہ ہوگی ۔
بالفاظ دیگر قیامت کے کئی مرحلے کا اپنا الگ پروگرام ہے، بعض اوقات مختلف مراحل کی وجہ سے اس قسم کے سوالات پیش آتے ہیں ۔
قیام قیامت کے بعد پہلا مرحلہ اعمال کے وزن کا ہے، اس روز کے لئے معیّن ایک خاص میزان کے ذریعے انسان کے اعمال کا وزن کیا جائے گا، کچھ لوگوں کے اعمال بہت وزنی ہوں گے کہ جو ترازو کا پلڑا جھکا دیں گے، انہی لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے: وہ لوگ کہ میزان میں جن کے اعمال کا وزن بھاری ہوگا وہ فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں (فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ فَاٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْمُفْلِحُون(
”موازین“ ”میزان“ کی جمع ہے کہ جس کے ذریعے اعمال تولے جائیں گے، ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ وہاں کوئی دو پلڑوں والا ایسا ترازو نصب ہوگا کہ جس سے مادی چیزوں کو تولا جاتا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ کسی مناسب ذریعے سے انسانی اعمال کی قدر وقیمت لگائی جائے گی ۔
دوسرے لفظوں میں ”میزان“ کا ایک وسیع مفہوم ہے کہ جس میں ناپ تول کے تمام ذرائع شانل ہیں، جیسا کہ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روز انسانوں کے اعمال ناپ تول کی میزان بلکہ خود انسانوں کی میزان عظیم پیشوا اور وہ انسان ہوں گے کہ جو ماڈل اور نمونہ ہیں، ایک حدیث میں ہے:
امیرالموٴمنین والاٴئمة من ذریتہ ھم الموازین“
امیرالمومنین علیعلیہ السلام اور ان کی ذریت میں سے جو امام ہیں وہی ناپ تول کے لئے میزان ہیں(1) ۔
لہٰذا انسانوں اور ان کے اعمال کا موازنہ اس روزِ عظیم انبیاءعلیہ السلام اور ان کے اوصیاء کے ساتھ کیا جائے گا اور اس موازنے سے واضح ہوجائے گا کہ لوگوں کے اعمال ان سے کس قدر مشابہت رکھتے ہیں ۔
اسی سے صاحبِ وزن اور بے وزن، قیمتی اور بے قیمت افراد اور اعمال کا فرق واضح ہوگا ۔
ضمناً ”موازین“ کو جمع کی صورت میں ذکر کرنے کا مقصد واضح ہوجاتا ہے کیونکہ جو عظیم پیشوا میزان اور معیار ہیں وہ متعدد ہیں ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ عظیم انبیاءعلیہ السلام، آئمہ اور الله کے خاص بندے اپنے زندگی کے حالات کے لحاظ سے ایک جہت سے یا کئی پہلووٴں سے نمونہ اور ماڈل تھے، اس طرح ان میں سے ہر ایک اسی حوالے سے میزان ہوگا ۔
رہے وہ افراد کہ جن کا پلڑا ایمان اور عمل صالح سے خالی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا سرمایہٴ وجود گنوا بیٹھے ہیں اور جھنوں نے نقصان اٹھایا ہے، وہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہیں گے (وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُہُ فَاٴُوْلٰئِکَ الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَھُمْ فِی جَھَنَّمَ خَالِدُونَ) ۔
”خَسِرُوا اٴَنفُسَھُمْ“ (انھوں نے خود اپنے وجود کا نقصان کیا ہے) یہ تعبیر اس حقیقت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ وہ دُنیا کے اس بازارِ تجارت میں اپنی ہستی اور وجود کا عظیم سرمایہ گنوا بیٹھے ہیں اور اس کے بدلے وہ کوئی قیمتی چیز بھی حاصل نہیں پائے انھیں جو دردناک ہوگا، اگلی آیت میں اس کے ایک حصّے کی تفصیل بیان کی گئی ہے، آگ جلادینے والے شعلے کی تلوار کی مانند ان کے چہروں پر لگیں گے (تَلْفَحُ وُجُوہَھُمْ النَّارُ) ۔ اور جہنم میں ان کی پریشانی اور عذاب کی شدّت کا یہ عالم ہوگا کہ ان کے چہرے سکڑے ہوئے ہوں گے (وَھُمْ فِیھَا کَالِحُونَ) ۔
”تلفح“ ”لفح“‘ (بروزن ”فتح“) مادے سے دراصل ”تلوار کی ضرب“ کے معنی میں ہے اور چونکہ آگ کے شعلے، سورج کی شدید تیز روشنی اور بادِ سموم کے چہرے پر پڑتی ہیں، لہٰذا بطور کنایہ یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
”کالح“ ”کلوح“ (بروزن ”غروب“ ) کے مادے سے چہرے کے سکڑنے کے معنی میں ہے، بعض مفسرین نے اس کی یہ تفسیر کی ہے کہ آگ کے تیز شعلوں کے باعث ا کے منھ سکڑجائیں گے اور منھ کھلے کے کھے رہ جائیں گے(2) ۔
1۔ بحارالانوار، ج۷، ص۲۵۱.
2 ۔ تفسیر قرطبی، تفسیر فخر رازی، تفسیر مجمع البیان، زیر بحث آیات کے ذیل میں.
۱۔ جس روز سب رشتہ داریاں ختم ہوجائیں گےسوره مؤمنون / آیه 101 - 104
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma