۲۔ ”فِیمَا تَرَکْتُ“ کا مفہوم

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۳۔ ”کَلاَّ“ یہاں کس چیز کی نفی کرتا ہے؟۱۔ ”رَبِّ ارْجِعُونِ“ میں مخاطب کون ہے؟
مندرجہ بالا آیات میں ہے کہ کافر لوگ موت کی چوکھٹ پر پہنچ کر خواہش کرتے ہیں کہ انھیں واپس لوٹا دیا جائے تاکہ ”انھوں نے جن چیزوںں کو ترک کیا ہے“ ان کے لئے عملِ بجالائیں ۔
بعض کانظریہ ہے کہ ”فِیمَا تَرَکْتُ“ ان اموال کی طرف اشارہ ہے کہ جو ان کی طرف باقی رہ گئے ہیں کیونکہ عام طور پر بھی نہیں ”ترکہٴ میّت“ کہتے ہیں ۔
امام صادق علیہ السلام سے ایک حدیث اسی مفہوم کی موٴیّد منقول ہے، آپعلیہ السلام فرماتے ہیں:
”من منع قیراطاً من الزکوٰة فلیس بموٴمن ولا مسلم وھو قولہ تعالیٰ ارجعون اعمل صالحاً فیما ترکت“ (1).
”جو شخص زکوٰة کا ایک قیراط(2) نہ دے وہ مومن ہے نہ مسلمان اور الله کا یہ فرمان اسی بارے میں ہے :(حَتَّی إِذَا جَاءَ اٴَحَدَھُمَ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ) ۔
بعض دیگر مفسرین اس سے زیادہ وسیع معانی کے قائل ہیں، وہ ”مَا تَرَکْتُ“ کو ان تمام اعمالِ صالح کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں کہ جنھیں یہ شخص چھوڑ چُکا ہے، یعنی خداوندا! مجھے واپس بھیج دے تاکہ جو صالح اعمال میں نے ترک کئے ہیں انھیں بجالاوٴں اور پہلی کوتاہیوں کی تلافی کرو ۔
دوسری تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔
ضمناً ”لَعَلِّی اٴَعْمَلُ صَالِحًا“ (شاید عمل صالح انجام دوں) میں ”لعلّ“ (شاید) ممکن ہے، اس طرف اشارہ ہو کہ یہ غلط کار اور منحرف افراد اپنی آئندہ کیفیت کے بارے میں مطمئن نہیں ہیں اور کم وبیش جانتے ہیں کہ یہ ندامت خاص حالات کی وجہ سے ہے اور موت آجانے کے باعث انھیں پیش آئی ہے، ورنہ اگر وہ واپس بھیج دیئے جائیں تو وہی روش باقی رکھیں گے اور حقیقت بھی یہی ہے
1۔ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۵۵۲، بحوالہٴ کافی؛”ثواب الاعمال، اور من لایحضرہ الفیہ۔
2 ۔ قیراط کا وزن حَو کے چار دانوں کے برابر ہوتا ہے ۔
۳۔ ”کَلاَّ“ یہاں کس چیز کی نفی کرتا ہے؟۱۔ ”رَبِّ ارْجِعُونِ“ میں مخاطب کون ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma