سب ایک امّت ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره مؤمنون / آیه 55 - 61سوره مؤمنون / آیه 51 - 54
گذشتہ آیتوںمیںانبیاء اور ان کی امتوں کی بات چل رہی تھی، زیرِ بحث آیت میں ان سب اس طرح خطاب ہوتا ہے: اے پیغمبر! پاک وپاکیزہ غذا کھاوٴ اور اچھے اچھے کام کرو، کیونکہ تم جو کچھ بھی کرتے ہو میں پوری طرح سے باخبر ہوں (یَااٴَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ) ۔
تمھارے اور دوسرے انسانوں میں امتیاز اس لحاظ سے نہیں ہے کہ تم اوصاف بشری نہیں رکھتے یعنی کھاتے نہیں بلکہ تمھارا امتیاز یہ ہے کہ تم اپنی خوراک اور غذا کو بھی اپنی ترقی وتکامل کا ایک ذریعہ سمجھے ہو، چنانچہ کھانا کھاتے ہوئے بھی جانچ پڑتال سے کام لیتے ہو اور صرف طیب وطاہر غذا ہی کھاتے ہو جبکہ دوسروں نے صرف کھانے کو رہنا مقصودِ زندگی بنارکھا ہے، وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان حیوانی تشنگی کس غذا سے دور ہوگی اوروہ کبھی بھی خبیث وطیّب اورگندی اور پاک کی پرواہ نہیں کرتے ۔
اگر اس نقطے پر غور کریں کہ خوراک انسانی افکار اور کردار پر اثر رکھتی ہے اور مختلف غذاؤں کے مختلف اخلاقی اثرات ہوتے ہیں تو ان دو جملوں کا آپس میں تعلق محسوس کیا جاسکتا ہے، ارشادہوتا ہے: پاک وپاکیزہ خوراک کھاوٴ اور نیک اعمال بجالاوٴ اکثر روایات میں بھی ہے کہ حرام غذا قبولیت عبادت اور قبولیت دعا کی راہ میں سنگِ گراں ہے، مندرجہ ذیل حدیث اس کی شاہدہے ۔
ایک شخص رسول الله کی بارگاہ میں حاضر ہوا، اس نے عرض کیا: میں چاہتا ہوں کہ میری دعا قبول ہو تو آپ نے فرمایا:
”طھّر ماٴکلتک ولاتدخل بطنک الحرام“.
”اپنی روزی کو پاک بناوٴ اور حرام غذا سے پرہیز کرو“(1)(2) ۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ”إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ“ (جوکچھ تم کرتے ہو میں اس سے آگاہ ہوں) کا جملہ انسان کے عمل صالح کا پابندرہنے کا زبردست ضامن ہے، کیونکہ جب انسان کو اس بات کا یقین ہو کہ اس کے ہر فعل کی ہمہ وقت نگران ایسی ذات ہے، جس سے کوئی چیز بھی چھپائی نہیں جاسکتی اور جو افعال کی جزئیات پر پوری نگاہ رکھتی ہے تو اس کے اعمال وکردار کی درستی پر بلاشبہ اثر پڑے گا ۔
اس کے علاوہ مذکورہ آیات میں بیان شدہ مفہوم پاک وپاکیزہ رزق کی نعمت جو اسے نصیب ہوئی ہے، انسان میں شکرگزاری کے احساس کو ابھارتی ہے، اس سے بھی انسان کے افعال وکردار پر بڑا اچھا اثر پڑتا ہے، اس طرح اس آیہٴ مجیدہ میں اعمال صالح کے لئے تین موٴثر عوامل کا ذکر کیا گیا ہے:
۱۔ پاکیزہ غذا کا دل کے صدق وصفا پر اثر کے لحاظ سے ۔
۲۔ اس نعمت کے ذریعے انسان میں احساس شکر گزاری کی بیداری کے لحاظ سے ۔
۳۔ الله ہمارے اعمال وکردار پر شاہد وناظر ہونے کے لحاظ سے ۔
”طیّب“ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیاہے، ہر پاک وپاکیزہ چیز کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور ”خبیث“ ہر ناپاک کے لئے، راغب اپنی کتاب ”مفردات“ رقم طراز ہیں کہ ”طیّب“ کا لغوی معنیٰ لذّت بخش چیز ہے، چاہے اس کا تعلق انسان کے جسم سے ہو یا روح سے، البتہ شرعی اصطلاح میں حلال اور پاکیزہ چیز کو ”طیّب“ کہتے ہیں، بہرحال قرآن مجید کی بہت سی بحثیں ”طیّب“ اور ”طیّبات“ کے محور پر گھومتی ہیں، جن میں سے بعض ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:
ا)انبیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ صرف پاکیزہ غذا استعمال کریں ۔
ب)مومنین سے بھی یہی کہا گیا ہے ۔
<یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ
”اے صاحبانِ ایمان! طیّبات میں سے جو روزی ہم نے تمھیں دی ہے کھاوٴ“۔ (بقرہ/۱۷۲)
ج) الله کی بارگاہ میں صرف وہ افکار اور اعمال باریابی حاصل کرسکتے ہیں جو طیّب وطاہر ہوں ۔
<إِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہُ
”اچھی اچھی باتیں اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہیں اور اعمال صالح کو وہ اوپر لے جاتا ہے“۔ (فاطر/۱۰)
د) مزیدبرآں الله نے انسان کو جس اعزاز سے نوازا ہے اور جو خوبی اسے دوسرے موجودات سے ممتاز کرتی ہے ۔
وہ اس کا طیّبات سے استفادہ کرنا ہے ۔
<وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاھُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاھُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاھُمْ عَلیٰ کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا
”ہم نے بنی نوع انسان کو عزت دی، خشکی اور پانیوں میں اس کے لئے سواریوں کا انتظام کیا اور پاک وپاکیزہ روزی اسے عطا اور اپنی مخلوق پر اسے فضیلت دی“۔ (بنی اسرائیل/۷۰)
رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے بھی ایک چھوتی سی پُرمغز روایت کی گئی ہے، آپ نے فرمایا:
”یا اٴیّھا النّاس انّ الله طیّب لایقبل الّا طیّبا“.
”الله خودپاک اور منزّہ ہے اور پاکیزہ عمل کے علاوہ کسی چیز کو شرف قبولیت نہیں بخشتا“(3)۔
اگلی آیت انبیاء اور ان کے پیروکاروں کو توحید وتقویٰ کی دعوت دیتے ہوئے کہتی ہے: ”تم سب ایک ہی امّت ہو (اور تمھارے درمیان اور تمھارے انیاء کے درمیان موجود فرق ہرگز علٰحیدگی اور عدمِ یگانگی کی دلیل نہیں) (وَإِنَّ ھٰذِہِ اٴُمَّتُکُمْ اٴُمَّةً وَاحِدَةً) ۔
اور میں تمھارا رب ہوں، پس میری مخالفت سے پرہیز کرو (وَاٴَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُونِی) ۔
اس طرح گویا یہ آیت انسانی معاشرے کو وحدت کی اور ہر قسم کے انتشار وپراگندگی کے خاتمے کی دعوت دیتی ہے جیسے وہ ایک اکیلا پروردگار ہے، انسان بھی ایک ہی امّت ہیں، لہٰذا انھیں ایک پروگرام اور نظام کے تحت یکجا ہوجانا چاہیئے، اسی طرح جیسے ان کے انبیاء ایک ہی دین وآئین کی طرف دعوت دیتے ہیں، وہ دین جس کے اصول ہر دور میں ایک جیسے رہے ہیں ۔ اور وہ ہیں توحید وحق شانسی، معاد وقیامت پر ایمان، نوع انسانی کے ارتقاء وکمال کی طرف توجہ دیتا، طیّبات اور پاک چیزوں سے استفادہ کرنا، عمل صالح انجام دینا اور عدالت واقدارِ انسانی کی حمایت کرنا ۔
بعض مفسرین کے نزدیک یہاں لفظ ”امة“ کا معنیٰ گروہ وجمعیّت نہیں بلکہ دین وآئین ہے، حالانکہ ”انا ربّکم“ میں ضمیر جمع اس پر شاہد ہے کہ ”امّت“ سے مراد انسانوں کی جماعت ہی ہے ، اسی لئے قرآن مجید میں جہاں بھی لفظ ”امة“ استعمال ہوا ہے وہاں اس سے مراد انسانوں کی جمعیّت اور گروہ ہے، البتّہ بعض استثنائی مواقع ہیں جہاں قرینہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ”امّت“ کو مجازاً مذہب کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، مثلاً:
<إِنَّا وَجَدْنَا آبَائَنَا عَلیٰ اٴُمَّةٍ وَإِنَّا عَلیٰ آثَارِھِمْ مُقْتَدُونَ
”ہم نے اپنے اباء واجداد کو ایک مذہب پر پایا اور ہم ان کی پیروی کریں گے“۔ (زخرف/۲۳)
یہ بات قابل توجہ ہے کہ تھوڑے فرق کے ساتھ اسی آیت کا مفہوم سورہٴ انبیاء کی آیت ۹۲میں میں بھی موجود ہے، ارشادہوتا ہے:
< إِنَّ ھٰذِہِ اٴُمَّتُکُمْ اٴُمَّةً وَاحِدَةً وَاٴَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِ
”یقیناً تمھاری امّت امّتِ واحدہ ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس میری ہی بندگی کرو“۔
حالانکہ اس سے پہلے بہت سے انبیاء کے حالات بیان کئے گئے ہیں اور در حقیقت ”ہٰذہ“ گذشتہ انبیاء کی امتوںکی طرف اشارہ ہے کہ جو سب کے سب الله کے نزدک امّت واحدہ تھے اور سب کے سب ایک ہی ہدف کے لئے مصروفِ عمل رہے ۔
اگلی آیت انسانوں کو انتشار وپراگندگی سے ان الفاظ میں ڈراتی ہے: لیکن لوگوں نے اپنے کاموں میں انتشار واختلاف پیدا کردیا اور ہر گروہ اپنی الگ ڈگر پر چل نکلا (فَتَقَطَّعُوا اٴَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ زُبُرًا) ۔
اور تعجب کی بات یہ ہے کہ ان میں سے ہرگزوہ اپنی حالت پر خوش ہے اور دوسروں سے بیزار ہے (کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُونَ) ۔
”زبر“ ”زبرة“ کی جمع ہے، یہ جانور کی پشت کے بالوں کے ایک حصّہ کے معنیٰ میں ہے کہ جسے جمع کرکے بقیہ سے الگ کرلیا جائے، بعد ازاں یہ لفظ ہر اس چیز کے لئے بولا جانے لگا کہ جو دوسری سے الگ کی گئی ہو لہٰذا ”فَتَقَطَّعُوا اٴَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ زُبُرًا“ تمام امتوں کے مختلف گروہوں میں منقسم ہوجانے کی طرف اشارہ ہے ۔
بعض نے یہ احتمال بھی پیش کیا ہے کہ ”زبر“ ”زبور“ کی جمع ہے، جس کا معنیٰ ”کتاب“ یعنی ہر گروہ نے کسی ایک آسمانی کتاب کو پکڑ لیا اور باقی خدائی کتب کا انکار کردیا، حالانکہ ان سب کا سرچشمہ ایک ہی ہے، لیکن ”کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُونَ“ کا جملہ پہلی تفسیر کو تقویت دیتا ہے ۔
بہرحال یہ آیت ایک اہم نفسیاتی اور اجتماعی حقیقت کو یان کرتی ہے اور وہ ہے مختلف گروہوں اور جماعتوں کا جاہلانہ تعصّب، ہرگزوہ نے اپنی ہی ایک ڈگر اپنا رکھی ہے اور اپنا ہی ایک دین بنا رکھا ہے اور ہر دوسری بات کے لئے اپنی فکر کے دریچے بند کرلئے ہیں، وہ تیار ہیں کہ کوئی تازہ روشنی اُن کی فکر کو روشن کرے اور تازہ ہوا ان کے سامنے کسی حقیقت کا دروازہ کھولے، یہ حالت کہ جس کا سرچشمہ بہت زیادہ خود خواہی، خود پرستی اور خود پسندی ہے، حقائق کے واضح ہونے اور امتوں کے درمیان وحدت قائم ہونے کی سب سے بڑی دشمن ہے، اپنے طور طریقے پر خوش رہنا اور اس کے علاوہ ہر کسی سے نفرت وبیگانگی بعض اوقات انسان کو اس مقام تک پہنچا دیتی ہے کہ وہ دوسرے کی بات تک سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا، کہ کہیں اس کی عادت کے برخلاف کوئی حقیقت اس پر آشکار نہ ہوجائے، جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے کے مشرکین کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
<وَإِنِّی کُلَّمَا دَعَوْتُھُمْ لِتَغْفِرَ لَھُمْ جَعَلُوا اٴَصَابِعَھُمْ فِی آذَانِھِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَھُمْ وَاٴَصَرُّوا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا
”بارالٰہا! جب میں نے انھیں تیری طرف آنے کی دعوت دی تاکہ تو اس کے گناہ بخش دئے، تو انھوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے اوپر کپڑا ڈال لیا اور اپنی غلط ڈگر پر ڈٹ گئے اور حق کے مقابلے انھوںنے سخت تکبر سے کام لیا“۔ (نوح/۷)
جب تک یہ حالت ختم نہ ہوجائے انسان حق تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا اور ہر شخص اپنے طریقہٴ عمل پر ہٹ دھرمی سے قائم ہے ۔
اسی لئے تو زیرِ بحث آخری آیت میں فرمایا گیاہے: جب یہ صورتحال ہے تو انھیں ان کی جہالت وگمراہی میں ڈوبا رہنے دو، یہاں تک کہ انھیں موت آجائے، یا پھر وہ عذاب الٰہی میں گرفتار ہوجائیں (فَذَرْھُمْ فِی غَمْرَتِھِمْ حَتَّی حِینٍ) ۔
ہوسکتا ہے لفظ ”حین“ وقتِ موت کی طرف یا نزول عذاب کے وقت کی طرف اور یا پھر دونوں کی طرف اشارہ ہو ۔
لفظ ”غمرة“ (بروزن ”ضربة“ در اصل ”غمر“ سے کسی چیز کا اثر ختم کرنے کے معنی میں ہے، بعد ازاں زیادہ پانی کو ”غمر“ یا ”غامر“ کہا جانے جو اپنا راستہ بناتے ہوئے آگے نکل جاتا ہے، پھر اس لفظ کا اطلاق جہالت وتعصّب پر بھی ہونے لگا کہ جو انسان کو گھیر لیتی ہے اور زیربحث آیت میں یہ اسی مفہوم میں ہے ۔
1۔ وسائل الشیعہ، ج۴، ابواب الدعاء، باب ۶۷، حدیث۴.
2۔ تفسیر نمونہ جلد۱ میں سورہء بقرہ کی آیت ۱۸۶ کی تفسیر کے ذیل میں اس موضوع پر کافی بحث ہوچکی ہے ۔
3۔ تفسیر قرطبی، ج۷، ص۴۵۱۹، زیرِ بحث آیت کی تفسیر کے ذیل میں ۔
سوره مؤمنون / آیه 55 - 61سوره مؤمنون / آیه 51 - 54
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma