کور دل مغروروں کی منطق

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره مؤمنون / آیه 26 - 30سوره مؤمنون / آیه 23 - 25
گذشتہ آیتوں میں توحید، معرفت پروردگار عالم خلقت میں اس کی عظمت کے دلائل کے بارے میں گفتگو تھی اسی مطلب کو عظیم انبیاءعلیہ السلام کی زبانی اور ان کی تاریخ کے حوالے زیرِ بحث لایا گیا ہے، آئندہ کی آیات میں بھی سلسلہ کلا م جاری جاری ہے ۔
سب سے پہلے اولوالعزم پیغمبر حضرت نوحعلیہ السلام جو توحید کے داعی اور اس کی تبلیغ وترویج کرنے والے ہیں، سے ابتداء کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، انھوں نے کہا: میری قوم! خدائے واحد کی عبادت کرو کہ جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں (وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَی قَوْمِہِ فَقَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرُہُ) ۔
کیا اس واضح بیان کے باوجود تم بتوں کی پرستش سے پرہیز نہیں کرتے (اٴَفَلَاتَتَّقُونَ) ۔
اس پر ان کی قوم کے دولت مند، مالدار اور مغرور افراد جو صرف ظاہر بین اور کور باطن تھے، کہنے لگے: یہ تمھاری طرح کا عام آدمی ہے جو تم پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے اور اسی جذبے کے تحت یہ تم پر مسلط ہونا چاہتا ہے (فَقَالَ الْمَلَاٴُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَوْمِہِ مَا ھٰذَا إِلاَّ بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یُرِیدُ اٴَنْ یَتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ) ۔
اور یوں ان کا انسان ہونا انھیں حضرت نوحعلیہ السلام کا پہلا ”عیب“ نظر آیا، اس پر مستزاد یہ کہ انھوں نے ان پر الزام لگایا کہ یہ ”ہوسِ اقتدار“ میں مبتلا ہے اور اس مقصد کو پانے کے لئے اُس نے توحید، دین اور تبلیغ کرنے کا ڈھونگ رچایا ہے، انھوں نے یہ کہا: اگر تم الله کوئی رسول بھیجتا بھی یقیناً اس مقصد کے لئے فرشتے بھیجتا (وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَاٴَنزَلَ مَلَائِکَةً) ۔
اس مہمل اور فضول منطق کی دلیل انھوں نے یہ پیش کی کہ ”ہم نے اپنے آاء واجداد سے کبھی یہ نہیں سنا کہ ایک انسان نبوّت کا دعویٰ کرے یا اپنے آپ کو الله کا نمائندہ سمجھے (مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِی آبَائِنَا الْاٴَوَّلِینَ) ۔
لیکن ان بے بنیاد باتوں نے عظیم پیغمبر کے سائے استقلال میں کوئی تزلزل پیدا نہ کیا اور انھوں نے پورے زور و شور سے اپنی دعوت جاری رکھی اور ان کے کسی کام میں بڑا بننے اور خواہش اقتدار کی کوئی علامت نہ تھی ۔
چنانچہ انھوں نے ان پر پاگل پن اور دیوانگی کا ایک اور الزام لگایا، یہ وہ الزام ہے جو تاریخ انبیاء میں اکثر پیغمبروں پر لگایا جاتا رہا ہے، وہ کہنے لگے: وہ تو ایک پاگل اور دیوانہ آدمی ہے ، لہٰذا اس وقت تک تمھیں صبرکرنا چاہیے کہ اسے موت آجائے، یا اس مرض سے شفا پالے (إِنْ ھُوَ إِلاَّ رَجُلٌ بِہِ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوا بِہِ حَتَّی حِینٍ) ۔
لائق توجہ بات ہے کہ انھوں نے اس اولوالعزم پیغمبر پر ”پاگل پن“ اور ”دیوانگی“ کی تہمت اس لئے لگائی تاکہ وہ اس حقیقت کو پوری طرح چھپاسکیں کہ اس کی ساری باتیں عقل ومنطق کی بہترین مثال ہیں، دراصل وہ کہنا چاہتے تھے کہ چونکہ دیوانگی کی کئی قسمیں ہیں اور بیشتر پاگل پن کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ ان پر دوروں کی سی کیفیت ہوتی ہے، کبھی صحیح العقل نظر آتے ہیں اور کبھی پاگل۔
”فَتَرَبَّصُوا بِہِ حَتَّی حِینٍ“ کا جملہ شاید حضرت نوحعلیہ السلام کی موت تک کے انتظار کی طرف اشارہ ہو، جس کا مخالفین بڑی بے چینی سے انتظار کررہے تھے، یہ بھی ممکن ہے کہ اس جملے سے ”دیوانگی“ کی بیماری پر وہ تاکید مزید کررہے ہوں، یعنی ان کی صحت یابی تک انتظار کرو (1) ۔
بہرحال حضرت نوحعلیہ السلام پر انھوں نے اپنی باتوں میں تین بیہودہ اور متضاد الزامات لگائے اور ہر ایک الزام کو ان کی رسالت کی نفی کی دلیل قرار دیا، اُن کی طرف سے یہ الزامات تھے:
۱۔ اصول طور پر انسان کی طرف سے نبوّت کا دعویٰ سراسر جھوٹ ہے اور پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا اور اگر الله نبی ہی بھیجنا چاہتا تو لازمی طور پر فرشتوں سے یہ کام لیتا ۔
۲۔ نوحعلیہ السلام ایک اقتدار پسند شخص ہے اور اپنے مقصد کو پانے کے لئے اس نے نبوّت کے دعوے کو ذریعہ بنایا ہے ۔
۳۔ نوحعلیہ السلام صحیح الدماغ آدمی نہیں ہے اور اس کا دعوائے نبوّت اسی بیماری کا نتیجہ ہے ۔
چونکہ ان بے بنیاد اور بے ربط الزامات کے جوابات بالکل واضح ہیں اور کئی جگہ پر دیے جاچکے ہیں، لہٰذا اس مقام پر قرآن مجید نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا، البتّہ یہ مسلّم ہے کہ انسان کا رہبر خود اسی کی نوعت سے ہونا چاہیئے تاکہ وہ انسانی ضروریات، تکالیف اور مسائل سے واقفیت رکھتا ہو، مزید برآں ہمیشہ سے ہی پیغمبر خود بنی نوع انسان سے ہی ہوا کرتے تھے، دوسرے انبیاءعلیہ السلام سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ان کی نمایاں تین صفات تواضع انکساری اور ہر قسم کی بالا دستی اور اقتدار پسندی کی نفی رہی ہے اور انبیاء کی عقل اور سوجھ بوجھ ان کے دشمنوں پر بھی بالکل آشکار تھی اور وہ اس کا اعتراف بھی کرتے تھے ۔
1۔ بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ اس جملے سے مراد یہ ہے کہ ”اس کو کچھ مدّت کے لئے قید کردو“ اور بعض نے یہ مراد لی ہے: ”سر دست اسے اس کے حال پر چھوڑ دو دیکھا جائے گا“ لیکن یہ دونوں تفسیریں ہرگز صحیح معلوم نہیں ہوتی ۔
سوره مؤمنون / آیه 26 - 30سوره مؤمنون / آیه 23 - 25
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma