رحم مارد میں ”جنین“ کے ارتقائی مراحل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۱۔ ایک دلیل سے مبداء اور معاد کا اثباتسوره مؤمنون / آیه 12 - 16

گذشتہ آیتوں میں سچّے مومنین کے اوصاف اور ان کی بہترین اُخروی اجزاء کا ذکراور ا کی صفوں میں شامل ہونے کے شوق کو اجاگر کیا گیا ہے، لیکن کیونکر اور کس طریقے سے؟ زیرِ بحث اور اس کے بعد آنے والی آیتوں کا ایک حصّہ ایمان اور معرفت کے حصول کے بنیادی طریقوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے، پہلے انسان کے باطنی اور اندرونی اسرار ورموز کی طرتوجہ دلائی گئی ہے ۔
اس مقام پر قرآن درحقیقت انسانِ النفس کی سیر کرواتا ہے اور اس کے بعد آنے والی آیتوں میں انسان کی توجہ خارجی کائنات کے حیرت انگیز وجود کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور یہ در اصل سیرآفاقی ہے، سب سے پہلے ارشاد ہوتا ہے: ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا(وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِینٍ) (1)۔
بیشک یہ انسان کی خلقت کی پہلی منزل ہے، وہ انسان جو بے پناہ قابلیتوں اور صلاحیتوں کا مالک ہے، اتنی رفعت کا حامل ہے کہ ”افضل مخلوقات اور افضل موجودات اس کا طُرّہ ہے ۔ اس بے قیمت مٹی سے بنا ہے، وہ مٹی جو بے اہمیت ہونے میں ضرب المثل ہے، یہی تو الله کی قدرت کا کمال ہے کہ اس نے حقیر سے مادے سے ”رفیع شاہکار“ بنایا ۔ ا س کے بعد ارشاد ہوتا ہے: پھر ہم نے اسے پُرامن جگہ پر بطور نطفہ ٹھہرایا (ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَةً فِی قَرَارٍ مَکِینٍ)
دراصل پہلی آیت مجموعی طور پر تمام انسانوں کی خلقت کی ابتداء کی طرف اشارہ کررہی ہے، اس میں آدم بھی شامل ہیں اور اس کی اولاد بھی اور یہ بتارہی ہے کہ سب مٹی اور گارے سے پیدا کئے گئے ہیں، دوسری آیت میں دوام اور افزائشِ نسل آدم کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ رحم مادر میں نر ومادہ کا نطفہ کس طرح ترکیب پاتا ہے ۔ درحقیقت یہ بحث سورہٴ سجدہ آیت۷ اور ۸ میں بیان شدہ مطلب کے مشابہ ہے اور وہ یہ ہے:
<وَبَدَاٴَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِنْ طِینٍ، ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہُ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ مَاءٍ مَھِینٍ
”انسانی کی ابتداء گارے سے ہوئی، پھر اس کی نسل ایک ٹپکنے والے حقیر پانی کے ذریعے باقی رکھی گئی“۔
رحم مارد کو قرار مکین پر اُمن قیام گاہ کہہ کر انسانی جسم میں اس کی خاصی حیثیت اور مقام کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ رحم مادر، انسانی جسم میں ایک محفوظ ترین مقام پر واقع ہے، ایک طرف سے ریڑھ کی ہڈی کا مضبوط ستون ہے دوسری طرف پیندے کی کمر کی مضبوط ہڈیاں، تیسری طرف سے پیٹ کے تہہ تہہ پردے اور چوتھے طرف بازوٴں کی حفاظت یہ سب اس پُرامن قیام گاہ کے واضح مظاہر ہیں، اس کے بعد رحم مارد میں نطفے کے تعجب انگیز اور ہوس رُبا مختلف مراحل اور خلقت کی مختلف صورتیں جو انسان کی رسترس سے باہر یکے بعد دیگرے اس پُرامن قیامگاہ میں وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: پھر ہم نطفے کو جمے ہوئے خون کی شکل میں لے آئے، پھر جمے ہوئے خون کو چبائے ہوئے گوشت کی صورت میں تبدیل کردیا گیا، پھر اس کو ہڈی کی شکل دی اور پھر ہڈیوں پر گوشت کہ تہہ چڑھادی (ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا) ۔
نطفے کے مرحلے سمیت مذکورہ بالا پہنچ مختلف مراحل تشکیل پاتے ہیں، جن میں کا ہرایک بجائے خود ایک حیرت انگیز عالم ہے، جو عجائبات کا مجموعہ ہے اور آج کے ترقی یافتہ دور میں جنین شناس جس پر گہری تحقیق کرر ہے ہیں، بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں، لیکن جس زمانے میں قرآن مجید نے ”انسانی جنین“ کی خلقت کے عجوبے کا انکشاف کیا تھا ۔ اس وقت اس سائنسی ترقی کا نام ونشان تک نہ تھا ۔
آیت کے آخری حصّے میں واقعی اہم ترین مرحلے کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے، یہ مرحلہ بلاشبہ سربستہ اورمعنی خیز ہے، پھر ہم نے اس میں ایک نئی خلقت پیدا کردی (ثُمَّ اٴَنشَاٴْنَاہُ خَلْقًا) ۔
وہ خدا جو خلق کرنے والوں میں سے بہترین ہے وہ بہت عظیم ہے (آخَرَ فَتَبَارَکَ اللهُ اٴَحْسَنُ الْخَالِقِینَ) ۔
بیشک، رحم مادر میں تاریکی کے پردوں کے اندر حقیر پانی کے قطرے سے اتنی عمدہ خوبصورت اور عجیب وغریب کمالات کی حامل تصویر بنانے کا بے مثال کمال لائق تحسین وآفرین ہے، اس حقیر سے موجود میں اتنی قابلیتیں اور صلاحتیں بھر دینے والا علم وحکمت کا حامل لائق ستائش وتحسین ہے ۔ آفرین اس پر اس کی بے نظیر خلقت پر ۔
ضمنی طور پر یہ بھی بیان ہوجائے کہ ”خالق“ مادہ ”خلق“ ہے اور اس کا مطلب ماپنا اور پیمایش کرنا ہے، عرب جب چمڑے کو کاٹنے کے لئے ماپتے ہیں تو اس کے لئے ”خلق“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ خلقت میں چونکہ پیمائش اور ناپ تول کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے، لہٰذا اس پر بھی ”خلق“ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔
”اٴَحْسَنُ الْخَالِقِینَ“اضافت کی یہ ترکیب ذہنوں میں ایک سوال کو جنم دیتی ہے کہ کیا الله کے علاوہ کوئی دوسرا خالق بھی ہے ۔
بعض مفسرین نے اس آیت کی طرح طرح سے توجیہہ کی ہے، حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں اور لفظ ”خلق“ غیر الله کی ایجاد، اختراع اور صنعت کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے، البتہ الله کسی چیز کو خلق کرنا اور مخلوق کا خلق کرنا ان میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔
الله کسی چیز کو خلق کرتے ہوئے اس کے اصل مادہ اور شکل وصورت دونوں کو خلق کرتا ہے، جبکہ انسان کسی چیز کو ایجاد کرتا ہے تو پہلے سے موجود مواد کو استعمال کرکے نئی شکل دیتا ہے مثلاً تعمیراتی مواد (ریت، مٹی، پتھر) سے عمارتیں اور لوہے اور دیگر دھاتوں سے کاریں، بسیں یا مشینیں بنالیتا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ الله کی خلقت اور پیدا کرنا، لامتناہی وغیر محدود ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت کاملہ رکھتا ہے اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے ۔
<اللهُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ(رعد/۱۶)
جبکہ انسان بہت سے محدود پیمانے پر ایجادات کرسکتا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ انسان کی ایجادات میں کئی نقائص پائے جاتے ہیں اور چاہیے کہ مسلسل عمل کرتے ہوئے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے، مگر الله کی مخلوق ہر قسم کے عیوب ونقائص سے مبرّا ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر انسان یہ قابلیت رکھتا ہے تو یہ الله کی مرضی سے ہی ہے، کیونکہ اس کی اجازت کے بغیر تو درخت کا پتہ بھی حرکت نہیں کرسکتا، جیسا کہ سورہٴ مائدہ کی آیت ۱۱۰ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہورہا ہے:
<إِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّینِ کَھَیْئَةِ الطَّیْرِ بِإِذْنِی
”جب تم میری اجازت سے گیلی مٹی سے پرندے کی طرح کی ایک شکل بناتے تھے“۔
بعد کی آیت توحید اور مبداء کے بارے میں بات کرتے ہوئے بڑی خوبصورتی لطافت اور سلیقے سے مسئلے کا رُخ معاد اور قیامت کی طرف موڑ دیتی ہے اور کہتی ہے کہ ان تمام عجیب وغریب خوبیوں اور صلاحیتوں کے باوصف انسان ہمیشہ زندہ نہیں رہے گا بلکہ ایک وقت آئے گا کہ یہ عجیب عمارت زمین بوس ہوجائے گی اور پھر تم اس زندگی کے بعد سب کے سب مرجائیں گے (ثُمَّ إِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُونَ) ۔
لیکن اس تصور کی نفی کے لئے انسان کے مرنے سے تمام چیزیں ختم ہوجائیں گی، چند روزہ عظمت وشوکت کس کام کی، بس یہ ایک فضول کھیل ہے، (فوراً یہ کہا جاتا ہے: پھر تم روزِ قیامت، اُٹھائے جاوٴگے)دوبارہ تمھیں زندگی دی جائے گ۔ البتہ اعلیٰ درجہ کی اور وسیع تر جہان میں ہوگی (ثُمَّ إِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ تُبْعَثُونَ) ۔
1۔ ”سلاسة“ (بروزن ”عصارة“ اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے لی جائے اور درحقیقت اس کا نچوڑ اور جوہر ہو ۔ (تفسیر مجمع البیان).
۱۔ ایک دلیل سے مبداء اور معاد کا اثباتسوره مؤمنون / آیه 12 - 16
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma