مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس سوال کا جواب سوره «آل عمران»کی آیت ۳۱ سے مل سکتا ہے جس میں خدا وندہ عالم دوستی کے حقیقی مفھوم کو بیان کررہا ہے اور جھوٹی محبت کے فرق کو واضح کررہاہے
پہلی آیت کہتی ہے کہ محبت ایک قلبی تعلق ہی کا نام نہیں بلکہ انسان کے عمل میں اس کے آثار دکھائی دینے چاہئیں ۔ جو شخص پر وردگار سے محبت کا مدعی ہے اس کے لئے پہلی نشانی یہ ہسے کہ وہ پیغمبر اور اللہ کے بھیجے ہوئے کی پیروی
" إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی"
پہلی آیت کہتی ہے کہ محبت ایک قلبی تعلق ہی کا نام نہیں بلکہ انسان کے عمل میں اس کے آثار دکھائی دینے چاہئیں ۔ جو شخص پر وردگار سے محبت کا مدعی ہے اس کے لئے پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ پیغمبر اور اللہ کے بھیجے ہوئے کی پیروی
" إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی"
حقیقت میں محبت کا یہ فطری اثر ہے کہ وہ انسان کو محبوب اور اس کی خواہشات کی طرف کھینچ لے جاتی ہے البتہ کمزور محبتیں بھی ہوسکتی ہیں کہ جن کی شعاع دل سے باہرنہ پر سکے لیکن ایسی محبتیں اس قدر حقیر ہیں کہ انہیں محبت کا نام نہیں دیا جاسکتا ۔ ایک حقیقی محبت یقینا عملی آثار کی حامل ہوتی ہے اور ایسی محبت محب کا محبوب سے ضرور تعلق قائم کردیتی ہے ، محبوب کی آرزووٴں کی راہ میں ثمر بخش ہوتی ہے اور ا س کی آرزووٴن کی تکمیل کے لئے محب کو سعی و کوشش کے لئے ایستادہ کردیتی ہے ۔
اس بات کی دلیل اور وجہ واضح ہے کیونکہ انسان کا کسی سے عشق اور لگاوٴ یقینا اس لیے ہے کہ اسے اس میں کوئی کمال نظر نہیں آتا ہے ۔ انسان کبھی کسی ایسی چیز سے عشق و محبت نہیں کرتا جس میں کوئی نقطہٴ کمال نہ ہو ، اس لئے خدا سے انسان کی محبت کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے کمال کا منبع اور سر چشمہ ہے ، اس لئے مسلم ہے کہ ایسی ہستی کے تما م پروگرام اور احکام بھی کامل ہوں گے ، ان حالات میں کسیے ممکن ہے کہ جو انسان تکامل و ارتقاء و ارتقاء کا حقیقی عاشق ہو وہ ان پروگراموں سے منہ پھیر لے اور اگر وہ رو گرداں ہوجاتا ہے تو یہ اس کے عشق و محبت کی عدم صداقت کی نشانی اور علامت ہے ۔
یہ آیت نجران کے عیسائیوں اور زمانہٴ رسول کے مدعیان محبت کے بار ے میں ہی نہیں بلکہ یہ تمام ادوار کے لئے اسلام کی ایک منطق ہے ۔ وہ لوگ جو رات دن عشق الٰہی یا پیشوایان اسلام مجاہدین ِ راہ خدا اور صالحین سے محبت کا دم بھر تے ہیں لیکن عمل کی دنیا میں ان سے کچھ بھی شباہت نہیں رکھتے ان کی حیثیت جھوٹے دعویداروں سے زیادہ نہیں ہے ۔ وہ لوگ سر تا پا گناہوں سے آلودہ ہیں اور اس کے باوجود اپنے دل کو خدا ، رسول ، امیر المومنین ﷼ اور عظیم پیشواوٴں کے عشق سے لبریز سمجھتے ہیں یایہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ایمان ، عشق اور محبت کا تعلق صرف دل سے ہے اور عمل سے ان چیزوں کا کوئی ربط نہیں وہ اسلام کی منطق سے بالکل لاتعلق ہیں ۔ معانی الاخبار میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ ﷼ نے فرمایا:
" ما احبّ اللہ من عصاہ "
جو گناہ کرتا ہے وہ خدا کو دوست نہیں رکھتا ۔
اس کے بعد آپ ﷼ نے یہ مشہور اشعار پڑھے :
تعصی الا لہ و انت تظھر حبّہ
ھٰذا لعمرک فی الفعال بدیع
لوکان حبّک صادقاً لاطعتہ
انّ المحب لمن یحب مطیع
یعنی
تو خدا کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کے باوجوداس کی محبت کا اظہار کرتا ہے ۔
مجھے اپنی جان کی قسم یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے ۔
اگر تیری سچی محبت ہوتی تو تُو اس کی اطاعت کرتا ۔
کیونکہ جو کسی سے محبت کرتا ہے وہ اس کے حکم کی پیروی کرتا ہے ۔
" یُحْبِبْکُمْ اللهُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ۔"
قرآن پاک اس جملہ میں کہتا ہے : اگر تم نے خدا سے محبت رکھی اور اس کے آثار تمہارے عمل اور زندگی پر مرتب ہوتو خدا تمہیں دوست رکھے گا اور اس دوستی کے اثرات حسبِ حال تم پر آشکار ہوں گے ، وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اپنی رحمت تمہارے شامل حال کردے گا ۔
خدا کی طرف سے متبادل دوستی کی دلی بھی واضح ہے کیونکہ وہ ایسی ہستی ہے جو ہر لحاظ سے کامل و اکمل ہے اور بحر بے کنار ہے
پہلی آیت کہتی ہے کہ محبت ایک قلبی تعلق ہی کا نام نہیں بلکہ انسان کے عمل میں اس کے آثار دکھائی دینے چاہئیں ۔ جو شخص پر وردگار سے محبت کا مدعی ہے اس کے لئے پہلی نشانی یہ ہسے کہ وہ پیغمبر اور اللہ کے بھیجے ہوئے کی پیروی
" إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی"
پہلی آیت کہتی ہے کہ محبت ایک قلبی تعلق ہی کا نام نہیں بلکہ انسان کے عمل میں اس کے آثار دکھائی دینے چاہئیں ۔ جو شخص پر وردگار سے محبت کا مدعی ہے اس کے لئے پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ پیغمبر اور اللہ کے بھیجے ہوئے کی پیروی
" إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی"
حقیقت میں محبت کا یہ فطری اثر ہے کہ وہ انسان کو محبوب اور اس کی خواہشات کی طرف کھینچ لے جاتی ہے البتہ کمزور محبتیں بھی ہوسکتی ہیں کہ جن کی شعاع دل سے باہرنہ پر سکے لیکن ایسی محبتیں اس قدر حقیر ہیں کہ انہیں محبت کا نام نہیں دیا جاسکتا ۔ ایک حقیقی محبت یقینا عملی آثار کی حامل ہوتی ہے اور ایسی محبت محب کا محبوب سے ضرور تعلق قائم کردیتی ہے ، محبوب کی آرزووٴں کی راہ میں ثمر بخش ہوتی ہے اور ا س کی آرزووٴن کی تکمیل کے لئے محب کو سعی و کوشش کے لئے ایستادہ کردیتی ہے ۔
اس بات کی دلیل اور وجہ واضح ہے کیونکہ انسان کا کسی سے عشق اور لگاوٴ یقینا اس لیے ہے کہ اسے اس میں کوئی کمال نظر نہیں آتا ہے ۔ انسان کبھی کسی ایسی چیز سے عشق و محبت نہیں کرتا جس میں کوئی نقطہٴ کمال نہ ہو ، اس لئے خدا سے انسان کی محبت کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے کمال کا منبع اور سر چشمہ ہے ، اس لئے مسلم ہے کہ ایسی ہستی کے تما م پروگرام اور احکام بھی کامل ہوں گے ، ان حالات میں کسیے ممکن ہے کہ جو انسان تکامل و ارتقاء و ارتقاء کا حقیقی عاشق ہو وہ ان پروگراموں سے منہ پھیر لے اور اگر وہ رو گرداں ہوجاتا ہے تو یہ اس کے عشق و محبت کی عدم صداقت کی نشانی اور علامت ہے ۔
یہ آیت نجران کے عیسائیوں اور زمانہٴ رسول کے مدعیان محبت کے بار ے میں ہی نہیں بلکہ یہ تمام ادوار کے لئے اسلام کی ایک منطق ہے ۔ وہ لوگ جو رات دن عشق الٰہی یا پیشوایان اسلام مجاہدین ِ راہ خدا اور صالحین سے محبت کا دم بھر تے ہیں لیکن عمل کی دنیا میں ان سے کچھ بھی شباہت نہیں رکھتے ان کی حیثیت جھوٹے دعویداروں سے زیادہ نہیں ہے ۔ وہ لوگ سر تا پا گناہوں سے آلودہ ہیں اور اس کے باوجود اپنے دل کو خدا ، رسول ، امیر المومنین ﷼ اور عظیم پیشواوٴں کے عشق سے لبریز سمجھتے ہیں یایہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ایمان ، عشق اور محبت کا تعلق صرف دل سے ہے اور عمل سے ان چیزوں کا کوئی ربط نہیں وہ اسلام کی منطق سے بالکل لاتعلق ہیں ۔ معانی الاخبار میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ ﷼ نے فرمایا:
" ما احبّ اللہ من عصاہ "
جو گناہ کرتا ہے وہ خدا کو دوست نہیں رکھتا ۔
اس کے بعد آپ ﷼ نے یہ مشہور اشعار پڑھے :
تعصی الا لہ و انت تظھر حبّہ
ھٰذا لعمرک فی الفعال بدیع
لوکان حبّک صادقاً لاطعتہ
انّ المحب لمن یحب مطیع
یعنی
تو خدا کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کے باوجوداس کی محبت کا اظہار کرتا ہے ۔
مجھے اپنی جان کی قسم یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے ۔
اگر تیری سچی محبت ہوتی تو تُو اس کی اطاعت کرتا ۔
کیونکہ جو کسی سے محبت کرتا ہے وہ اس کے حکم کی پیروی کرتا ہے ۔
" یُحْبِبْکُمْ اللهُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ۔"
قرآن پاک اس جملہ میں کہتا ہے : اگر تم نے خدا سے محبت رکھی اور اس کے آثار تمہارے عمل اور زندگی پر مرتب ہوتو خدا تمہیں دوست رکھے گا اور اس دوستی کے اثرات حسبِ حال تم پر آشکار ہوں گے ، وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اپنی رحمت تمہارے شامل حال کردے گا ۔
خدا کی طرف سے متبادل دوستی کی دلی بھی واضح ہے کیونکہ وہ ایسی ہستی ہے جو ہر لحاظ سے کامل و اکمل ہے اور بحر بے کنار ہے
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.